اللہ کے بندو! اللہ کا تقویٰ اختیار کیجیے۔ اپنے سلسلے میں میری یوں مدد کریے کہ قصور وار بن کر کبھی میرے رو برو مت آیئے۔ اور میرے سلسلے میں میری مدد یوں کریے کہ مجھے نیکی کا حکم دیجیے، برائی سے منع کیجیے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے جن معاملات کا متولی بنایا ہے، ان کے متعلق مجھے نصیحت کرتے رہا کیجیے۔‘‘ یہ تھے خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جو اپنی رعایا سے ایسا برتاؤ کرتے تھے جیسا برتاؤ باپ اپنے بچوں سے کرتا ہے۔ باپ نہ صرف اپنے بچوں کے روز مرہ اخراجات برداشت کرتا اور ان کی پرورش کرتا ہے بلکہ وہ اپنی اولاد کے لیے اپنے جان و مال کی بھی پروا نہیں کرتا۔ فرزندانِ اسلام کے ساتھ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا طرزِ معاملت بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ان کے بے مثال طرزِ حکومت کا ایک روشن پہلو یہ بھی تھا کہ وہ جس آدمی کو لوگوں کا امیر مقرر کرتے، اس کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرتے اور اس کی ہمہ وقت نگرانی کے لیے اپنے جاسوس بھی روانہ کرتے جو انھیں اس عہدیدار کے طور اطوار اور عمل و کردار کی برابر خبر کرتے رہتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بحرین کا عامل (وزیر) مقرر کیا تو وہ دس ہزار روپے ہمراہ لائے۔ خلیفۂ ثانی نے دیکھا تو تعجب کیا۔ فرمایا: ’’اچھا تو یہ تمام روپیہ آپ کا ہے! ذرا بتایئے تو، یہ روپیہ کہاں سے آیا۔‘‘ وہ بولے: ’’ایک تو میرے گھوڑوں کی افزائش نسل ہوئی ہے۔ دوسرے آپ کی طرف سے جو تنخواہ پاتا تھا، وہ جمع ہوتی رہی۔ تیسرے میرا ایک غلام ہے جو میرے لیے روپیہ کماتا ہے۔‘‘ خلیفہ ثانی نے تفتیش کرائی تو ان کی بات درست نکلی۔ بعدازاں آپ نے انھیں بلا |