حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے طرزِ خلافت کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ خلیفہ تمام عمال حکومت کے متعلق فرداً فرداً جوابدہ ہے۔ محض اچھے وزیر کا تقرر کرکے اس کی ذمے داری پوری نہیں ہو جاتی۔ زمانۂ خلافت میں ایک روز چند حضرات آپ کی خدمت میں حاضر تھے۔ مختلف سیاسی و سماجی امور زیر بحث آئے۔ آپ نے انھیں مخاطب کرکے فرمایا: ’’اگر میں ایک آدمی کو اپنے علم کے مطابق آپ کے لیے بہتر خیال کروں، اسے آپ کا عامل مقرر کردوں اور انصاف کرنے کا حکم دوں تو آپ کے خیال میں کیا میں نے اپنا حق ادا کردیا؟‘‘ انھوں نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ آپ نے تو اپنا حق ادا کردیا۔ فرمایا: نہیں، اس وقت تک میرا فرض ادا نہیں ہوتا جب تک میں یہ اطمینان نہ کرلوں کہ اس عہدیدار کو میں نے جو احکامات دیے تھے، اس نے ان کی تعمیل بھی کی ہے کہ نہیں۔ ایک مرتبہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھ پر آپ کا یہ حق ہے کہ میں آپ کے خراج کی رقوم اور اموال غنیمت میں سے ناحق کچھ نہ لوں۔ مجھ پر آپ کا یہ بھی حق ہے کہ آپ کا جو روپیہ میرے ہاتھ آئے، میں اسے مستحق افراد پر ہی خرچ کروں۔ یہ امر بھی میں اپنے ذمے لیتا ہوں کہ ان شاء اللہ آپ کے وظائف میں اضافہ کروں گا اور ملک کی سرحدوں کو مزید مستحکم بناؤں گا۔ آپ مجھ پر یہ بھی حق رکھتے ہیں کہ میں آپ کو ایسی مہمات پر روانہ نہ کروں جن میں ہلاکت یقینی ہو۔ اور یہ بھی کہ آپ کو سرحدوں پر ہی تعینات نہ کیے رکھوں۔ اور یہ بھی کہ جب آپ فوجی مہمات پر روانہ ہوں تو آپ کی واپسی تک باپ بن کر آپ کے اہل و عیال کی نگہداشت کروں۔ سو اے |