فرمایا: ’’ہاں۔ قسم اُس کی ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں اس کا بھی قصاص لوں گا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ بنفس نفیس قصاص دینے کو تیار ہوجاتے تھے۔ میری یہ بات کان کھول کر سن لیجیے، مسلمانوں کو زد و کوب کر کے انھیں ذلیل و رسوا نہ کیجیے گا۔ ان کے حقوق کی ادائیگی نہ کرکے انھیں کافر بننے پر مجبور نہ کیجیے گا۔ انھیں نشیب میں اتار کر ضائع مت کیجیے گا۔‘‘ اتنے میں ایک آدمی کھڑا ہوا۔ اُس نے عرض کیا: ’’یاامیر المومنین! آپ کے عامل (عہدیدار، حاکم) نے مجھے سو کوڑے مارے تھے۔‘‘ آپ نے فوراً اس عہدیدار سے جواب طلب کیا۔ سو کوڑے مارنے کا کوئی معقول جواز اس کے پاس نہیں تھا۔ آپ نے اس آدمی سے کہا کہ اٹھو اور اس سے قصاص لو۔ یہاں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مداخلت کی۔ عرض کیا کہ امیر المومنین! ہم اس آدمی کو راضی کیے لیتے ہیں۔ فرمایا: بہت خوب، اسے راضی کرلیجیے تو ٹھیک ہے، چنانچہ انھوں نے مضروب کو دو سو اشرفی پر راضی کرلیا، یعنی ہر کوڑے کے بدلے میں دو اشرفی۔[1] قبل اس سے کہ عمال حکومت کے لیے کوئی لائحہ عمل وضع کرتے اور اس پر عمل کراتے، خود ایک لائحہ عمل پر عمل پیرا تھے۔ اس لائحہ عمل کی چند اہم شقیں یہ تھیں: ’’حکومت، حاکم اور رعایا دونوں کے لیے آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے۔ ‘‘ ’’حاکم کے مزاج میں سختی ہونی چاہیے تاہم یہ سختی جبر و قہر کی صورت اختیار نہ کرے۔‘‘ ’’اور اس کے برتاؤ میں نرمی بھی ہونی چاہیے لیکن کمزوری معلوم نہ ہو۔‘‘ |