Maktaba Wahhabi

99 - 148
ہوئی۔اور جو چیز وقوع پذیر ہو چکی ہے،اللہ تعالیٰ کے علم کا تعلق اس کے ساتھ اسی لحاظ سے متعلق ہوتاہے کہ وہ واقع ہو چکی ہے۔ علماء نے اس آیت کی یہ تاویل بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ سچوں کے سچ اور جھوٹوں کے جھوٹ کو جان لیں گے اور اللہ عزوجل کا یہ جاننا ان دونوں کے وقوع پذیر ہونے کی نسبت سے ہو گا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے یہ جانتا ہے کہ یہ دونوں وقوع پذیر نہیں ہوئے ہیں اور مومنین اور منافقین کو جاننے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ایمان اور منافقین کے نفاق وقوع پذیر ہونے کو جان لے،جیسا کہ ان کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے وہ یہ جانتا ہے کہ یہ وقوع پذیر نہیں ہوئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فرمان:﴿وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ﴾ میں ’’لَمَّا‘‘ نافیہ اور ’’لَمْ‘‘ کے معنی میں ہے۔ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابھی مجاہدین کے جہاد اور اس کی خاطر صبرکرنے والوں کے صبر کو تو جانا(دیکھا) ہی نہیں،اس حال میں کہ یہ جہاد اور صبر عملاً ظہور پذیر ہو چکے ہوں۔ جس طرح کہ ان کا عدم وقوع اس کے علم میں تھا۔اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم قدیم ہے،جس سے پہلے جہالت نہیں تھی۔اللہ کی ذات صفت ِجہالت سے بالاتر ہے۔ اور اللہ کی صفتِ علم تبدیل نہیں ہوتی،بلکہ اس صفتِ علم اور شیء کے مابین جو تعلق ہے تبدیلی اس میں واقع ہوتی ہے۔ پس جب کوئی شیء وقوع پذیر ہو جائے تو اس سے متعلق صفتِ علم اور جب تک وہ وقوع پذیر نہ ہوئی ہو،اس سے متعلق صفتِ علم کے مابین فرق ہوتا ہے۔ (۴)۔ اس حوالے سے چوتھی مثال جو گولڈ زیہر نے پیش کی ہے،وہ سورۃ المائدہ کی یہ آیت ہے: ﴿اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ہَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ قَالَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ اس کے ضمن میں گولڈ زیہراپنی کتاب کے صفحہ 36 پر لکھتا ہے: ’’حواری اللہ تعالیٰ اور حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے کے بعد یہ سوال کر رہے ہیں کہ اے عیسی ٰ بن مریم !کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان
Flag Counter