الَّذِیْنَ نَافَقُوْا﴾ (آل عمران:166،167) اور سورۃ الحدید میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں: ﴿وَ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ﴾ (الحدید:25) بلکہ قرآن کریم میں ایسی آیا ت بھی موجود ہیں جو ان آیات کی نسبت زیادہ پرزور انداز میں اس مفہوم کو بیان کر رہی ہیں،لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ کسی کو بھی ان آیات کی قراء ت میں ترمیم کی جرأت نہ ہوئی۔سورۃ آل ِعمران کی یہ آیت ملاحظہ فرمایے:﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ اور سورۃ التوبہ کی اس آیت کو بھی پڑھ لیجئے:﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَ لَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ لَا رَسُوْلِہٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً﴾ (التوبۃ:142) ہمارا یہ ایمان ہے کہ کوئی بھی مسلمان،خواہ وہ کیسا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو،قرآن کریم میں ترمیم و تبدیلی کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا،خواہ اس کے نتیجے میں کیسی اعلی قسم کی اصلاح ہو رہی ہو۔جب رسول اللہ کو اللہ عزوجل کی طرف سے یہ حکم تھا کہ﴿قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ﴾کہ ان سے کہو ’’میرا یہ کام نہیں کہ اپنی طرف سے اس میں کچھ ترمیم کر لوں،میں تو بس وحی کا پیروہوں،جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔‘‘ توپھر یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا کوئی اوراپنی طرف سے قرآن کریم میں کسی قسم کا تغیر وتبدل کرنے کی جرأت کرتے۔یہ شبہ پہلی دفعہ نہیں اٹھایاگیا بلکہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں بھی یہ شبہ لوگوں کے ذہنوں میں گردش کر رہا تھا۔لیکن علمائے سلف،محدثین اور ائمہ مفسرین،خصوصاً علمائے متکلمین نے اس شبہ کو پیش کرنے کے بعد اس کا جواب دیا،آیات کے مفاہیم کو واضح کیا اورثابت کیاکہ یہ آیات اسلام کے کسی اساسی عقیدہ یا اصول شریعت سے متصادم نہیں ہیں۔اس مقام پر بھی علمائے تفسیر نے یہ ثابت کیا ہے کہ جوچیز ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئی،اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے علم کا تعلق بھی اس حیثیت سے ہوتا ہے کہ وہ چیز ابھی واقع نہیں |