نے خود نہیں کئے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امام زہری رحمہ اللہ کی طرف منسوب قراء ۃ کا مقصد اسی شبہ کا ازالہ تھا۔یہ قراء ۃ یاء کی پیش اور لام کی زیر کے ساتھ ’’فَلَیُعلِمَنَّ‘‘ ہے،جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی پہچان ضرور کر دا دے گا۔ یا اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایسا امتیازی نشان عطا کر دے جسے دیکھ کر لوگ انہیں پہچان لیں گے۔چنانچہ سچے لوگوں کی علامت یہ ہے کہ ان کی آنکھیں سیاہ یا سرمئی ہوتی ہیں اور جھوٹے لوگوں کی علامت یہ ہے کہ ان کی آنکھیں نیلگوں ہوتی ہیں۔نیلگوں آنکھیں عربوں کے ہاں بد خصلت اور خباثت کی علامت اورقبیح تصور کی جاتی ہیں اور لوگ ان سے بد شگونی لیتے ہیں اور بعض دفعہ ایسی آنکھیں ان کے ہاں انتہائی خوفناک جادوئی طاقت کی حامل متصور ہوتی ہیں۔‘‘ گولڈ زیہرکا یہ پورا اقتباس یا اس کا اکثر حصہ ابو حیان اندلسی،امام قرطبی اور علامہ آلوسی رحمہم اللہ کی تفسیر سے نقل کیا گیا ہے۔باقی جہاں تک حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر حضرات کی طرف منسوب اس قراء ۃ کا تعلق ہے تو یہ نہ تو ائمہ عشرہ سے مروی ہے اور نہ ہی قراءات شاذہ کے راویوں میں سے کسی نے اسے روایت کیا ہے۔ اور نہ ہی ان لوگوں نے اسے روایت کیا ہے جن کی طرف شاذو نادر قراءات کی نسبت ہوتی ہے۔لہٰذا ہم کیسے مان سکتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امام زہری رحمہ اللہ نے اس قراء ۃ کو بیان کیا ہوگا۔ بفرض محال اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ و دیگر کی طرف اس قراء ۃ کی نسبت ثابت بھی ہو جاتی ہے تو بھی یہاں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس لیے اس میں ترمیم کی کہ یہ اسلام کے کسی مسلمہ عقیدہ سے متصادم تھی۔اگر ایسا ہوتا تو اسی مفہوم کی دیگر آیات ِقرآنیہ میں بھی تبدیلی ہو نی چاہیے تھی۔ اگر فی الواقع ایسا ہی تھا تو اسی مفہوم کی حامل دیگر آیات میں تبدیلی کا خیال انہیں کیوں نہ آیا؟ جیسا کہ سورۃ آل عمران میں فرمان الٰہی ہے: ﴿وَ مَآ اَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰہِ وَ لِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ لِیَعْلَمَ |