Maktaba Wahhabi

96 - 148
ہے۔سوال یہ ہے کہ تاء کی زبر والی قراء ت کیوں ا صلی نہیں ہو سکتی،جبکہ وہ گولڈ زیہر کے موہوم خدشہ سے مبرا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ قراءات کے درمیان ا صلی اور فرعی کا کوئی تصور نہیں ہے،بلکہ مقررہ معیار کے اوپر پورا اترنے والی تمام قراءات روایت ونقل اوراستنادی اعتبار سے برابر ہیں۔اس اعتبار سے کسی بھی قراء ت کو کوئی امتیازی شان حاصل نہیں ہے۔اس حقیقت کی کی ایک بڑی دلیل امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا قول ہے جسے خود گولڈ زیہر نے نقل کیا ہے۔باقی قاضی شریح رحمہ اللہ کا یہ قول کہ’’اللہ تعالیٰکسی چیز پر حیران نہیں ہوتا،وہ صرف لاعلم شخص پر حیران ہوتا ہے۔‘‘اس کا زیادہ سے زیادہ یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ انہوں نے فتح (زبر) کی قراء ۃ کو پیش کی قراء ۃ پر ترجیح دی ہے،کیونکہ فتح کی قراء ۃ میں کسی معنوی تاویل کی ضرورت پیش نہیں آتی،جبکہ پیش کی قراء ۃ اپنے مفہوم میں تاویل و تشریح کی محتاج ہے۔اورظاہر ہے جو چیز کسی تشریح کی محتاج نہیں ہے،وہ اس سے زیادہ بہتر ہے جو اپنے مفہوم میں تشریح کی محتاج ہو۔اس بنیاد پر اگر انہو ں نے فتح کی قراء ۃ کو اختیار کیا ہے تو اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ رفع(پیش) کی قراء ت کا انکار کر رہے ہیں۔ (۳)۔ اس حوالے سے تیسری مثال جو گولڈ زیہر نے پیش کی ہے،وہ سورۃ العنکبوت کی یہ دو آیات ہیں: ﴿ أَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا أَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ﴾ (العنکبوت:2-3) گولڈ زیہر لکھتا ہے: ’’ان کلمات کے تناظر میں یہ تصور سامنے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سچے کی سچائی اور جھوٹے کا جھوٹ معلوم کرنے کے لیے امتحان و آزمائش کی ضرورت ہے،گویااس کے بغیر وہ سچ اور جھوٹ کو نہیں جان سکتا۔گویا قضاوقدر کے فیصلے اس
Flag Counter