Maktaba Wahhabi

95 - 148
وجہ سے ترک کر دیں کہ اس میں ذات الٰہی کی شان کے منافی مفہوم کا تاثر ابھرتا ہے۔ پھر ہم گولڈ زیہر سے پوچھتے ہیں کہ قراءات میں تبدیلی کا باعث اگر یہ خدشہ تھا کہ کہیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں،وہ فقرے نہ آجائیں جو اس کے شایان شان نہ ہوں تو پھر قرآن کریم میں موجود ان متعدد آیات میں تبدیلی کا خیال علماء کو کیوں نہ آیا کہ جن میں یہی خدشہ مذکورہ بالا آیت سے کہیں زیادہ ہے ؟یہ تمام آیات جو بظاہر اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان مشابہت پر دلالت کناں ہیں،ان میں تبدیلی کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی گئی۔مثلا ً یہ آیات ملاحظہ ہوں: ﴿یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ﴾ (الفتح:10) ﴿تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَا﴾ (القمر:14) ﴿ وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ﴾ (الرحمن:27) ﴿فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ﴾ (الزخرف:55) ﴿وَ مَکَرُوْا مَکْرًا وَّ مَکَرْنَا مَکْرًا﴾ (النمل:50) ﴿ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ﴾ (البقرۃ:222) یہ تمام آیات بظاہر اللہ تعالیٰ کی شان ِالوہیت کے منافی معلوم ہوتی ہیں،لیکن علماء نے بالاتفاق ایسی تمام آیات کی جو تفسیر و تعبیر کی ہے،وہ اللہ کی شان الوہیت کے بالکل مطابق ہے اور اس سے اللہ اور بندوں کے درمیان مشابہت کا تاثر ختم ہوجاتا ہے۔ ٭ اور گولڈ زیہر کا یہ کہنا کہ ’’یہاں ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ متکلم کا صیغہ ’’عجبتُ‘‘ ا صلی قراء ۃ ہے۔‘‘ محض دھونس اور دھاندلی ہے۔آپ کو کس نے کہہ دیا کہ پیش کے ساتھ قراء ت ا صلی قراء ۃہے؟آخر کس بنیاد پر آپ نے یہ فرض کرلیا ؟جبکہ دونوں قراءات متواتر اور قطعی و یقینی ذرائع سے ثابت ہیں۔دونوں مقام ومرتبہ میں برابر ہیں۔اس کے باوجود ان میں سے ایک قراء ۃ کو ا صلی اور دوسری کو فرعی قراردینا سراسر باطل ہے،کیونکہ اصول یہی ہے کہ دو ہم پلہ چیزوں کے درمیان بغیر کسی دلیل کے ترجیح باطل ہوتی
Flag Counter