اس کے بعد گولڈ زیہر نے امام طبری رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ دونوں قراء تیں قرائے امصار کے ہاں مشہور ہیں،دونوں اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں اور دونو ں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنے کا حکم دیا ہے،لہٰذا یک کو دوسری پر ترجیح نہیں دی جائے گی۔ اس کے بعد گولڈ زیہر کہتا ہے کہ قاضی شریح رحمہ اللہ اسے تاء کی زبر کے ساتھ ’’عَجِبْتَ‘‘ پڑھتے تھے اور فرماتے تھے:’’اللہ تعالیٰکسی چیز سے حیران نہیں ہوتا،وہ صرف لاعلم شخص پر حیران ہوتا ہے۔‘‘ تو اس پر ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا کہ ’’شریح رحمہ اللہ اپنے علم پر نازاں ہیں،لیکن عبد اللہ بن مسعود صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ان سے زیادہ ہے اور وہ اسے پیش کے ساتھ پڑھتے تھے۔‘‘ گولڈ زیہر کا سرمایہ تحقیق ختم ہوا،اب اس پر ہمارا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے: ٭ گولڈ زیہر کا یہ کہناکہ ’’عام قرائے مدینہ اوربصرہ اسے تاء کی پیش کے ساتھ ’’بَلْ عَجِبْتُ‘‘ پڑھتے ہیں‘‘ محض جھوٹ اور افترا ہے۔ ابو جعفر،شیبہ بن نصاح،نافع بن ابونعیم رحمہم اللہ اور دیگر قرائے مدینہ اور ابو عمرو بصری،یعقوب رحمہم اللہ اور دیگر قرائے بصرہ نے اسے صرف فتح (زبر) کے ساتھ پڑھا ہے۔ ٭ اور گولڈ زیہر کا یہ کہنا کہ ’’ علماء نے ذات ِالٰہی کی طرف تعجب و حیرانی کی نسبت کو مناسب خیال نہیں کیا،لہٰذا انہوں نے یہاں تاء کو زبر کے ساتھ پڑھ دیا۔‘‘بھی سراسر زیادتی ہے۔ گزشتہ صفحات میں ہم واضح دلائل سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ قراءات قرآنیہ میں رائے،اجتہاد اور ذاتی پسند و نا پسند کا قطعاً کوئی دخل نہیں ہے۔قراءات کا تمام تر انحصار نقل اور روایت وسند پر ہے اوریہاں علماء نے ذات الٰہی کی طرف تعجب و حیرانی کی نسبت کی جوتفسیر و تاویل بیان کی ہے وہ اس کی شانِ الوہیت کے عین مطابق ہے۔علمائے مفسرین نے اس کی تفسیر استعظام اور جزاو سزا وغیرہ سے کی ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ میں اسے اپنی قدرت کا عظیم کرشمہ سمجھتا ہوں،اس کے باوجود یہ میری آیات کا مذاق اڑا رہے ہیں تو انہیں اس کی سزا ضرور ملے گی۔ ان علماء کرام کے لیے بھلا کیسے ممکن تھا کہ وہ تاء کی پیش کے ساتھ قراء ۃ جو تواتر سے ثابت ہے،کو محض اس |