اتار سکتا ہے ؟اس طرح کا سوال،ناممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ کے حواریوں کی زبان سے صادر ہوا ہوا،لہٰذا بعض نے اسے صیغہ مخاطب اور لفظ ’’ربک‘‘ کی باء کی زبر کے ساتھ﴿ہَلْ تسْتَطیْع رَبَّکَ﴾ پڑھ دیا۔اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ کیا آپ اپنے رب کے سامنے یہ سوال رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار دے۔‘‘ گولڈ زیہر کا یہ کہنا کہ ’’کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے؟ حواریوں کی زبان سے اس طرح کے سوال کا صادر ہونا ناممکن ہے۔‘‘ اس قراء ۃ کے انکار کے مترادف ہے۔حالانکہ یہ مدینہ،مکہ،شام اوربصرہ کے تمام قراء اور کوفہ کے اکثر قراء کی قراء ۃ ہے۔ اور یقیناً تواتر سے ثابت ہے،لہٰذا اس یقینی اورقطعی قراء ۃ کا انکار اور اس کے ثبوت میں شک و شبہ پیدا کرنے کی کوئی گنجائش یہاں نہیں ہے۔ باقی جہاں تک اس کے مفہوم کا تعلق ہے تو یہ قراء ۃ اگرچہ اسی سورت کی آیت﴿قَالُوا آمَنَّا وَ اشْہَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ﴾ اور حواریوں کے ایمان کے بظاہر منافی معلوم ہوتی ہے،کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آیا ہے،ہر چیز پر اللہ کی قدرت کا معترف ہو گیا ہے اور اللہ کے صادق و امین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کر چکا ہے،وہ یقینا اللہ کی قدرت کے بارے میں اس قسم کے شک کا اظہار نہیں کر سکتا۔لیکن مفسرین نے اس قراء ۃ کی ایسی خوبصورت تعبیرات پیش کی ہیں جو عربی زبان و ادب،آیت کے سیاق وسباق اور حواریوں کے ایمان کے عین مطابق ہیں۔ ذیل میں ہم اس کی چند تعبیرات پیش کر رہے ہیں: ’’یَسْتَطِیْعُ‘‘ میں سین اور تاء زائدہ ہیں۔عربوں کا اسلوب ہے کہ وہ نظم و نثر میں اکثر سین اورتاء بڑھا دیتے ہیں۔ مثلا ان کے کلام میں ’’استجاب‘‘ کا لفظ ’’أجاب‘‘ کے مفہوم میں اور ’’استطاع‘‘ کالفظ ب ’’أطاع‘‘ کی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے آیت کا معنی یہ ہوگا کہ اے عیسیٰ بن مریم! اگر ہم آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتارنے کا مطالبہ کریں تو کیا آپ کا رب آپ کی دعا قبول کر لے گا؟امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: |