Maktaba Wahhabi

101 - 148
(ا)… ’’یطیع‘‘یہاں مجازاً ’’یجیب‘‘ کے معنی میں ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ اگر آپ اپنے رب سے درخواست کریں تو کیا وہ قبول کر لے گا۔یہ امام سدی رحمہ اللہ کا قول ہے۔ (ب)… ’’ہَلْ یَسْتَطِیْعُ‘‘ یہاں ’’ہل یفعل ذلک و یحققہ‘‘ کے معنی میں ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار دے گا اور ہماری اس خواہش کو عملی جامہ پہنا دے گا ؟ان کا یہ کہنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی آدمی سے کہتے ہیں کہ کیافلاں شخص یہاں آسکتا ہے ؟حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ وہ واقعی آسکتاہے۔تو اس پوچھنے کامعنی یہ ہو گا کہ کیا وہ اس کام کو عملی جامہ پہنائے دے گا ؟کلام عرب میں اس تعبیر کو مجاز مرسل کہتے ہیں۔اس لیے کہ یہاں استطاعت جو کہ سبب ہے کو چھوڑ کر مسبب یعنی آنا،مراد لیاگیا ہے۔اوراہل عرب کا یہ اسلوب ہے کہ وہ مجاز اور اس کی تمام اقسام کو نظم و نثر اور دیگر اصنا فِ گفتگومیں اختیار کرتے ہیں۔ مجاز در اصل حقیقت کی نسبت زیادہ فصاحت وبلاغت کا حامل ہوتا ہے۔اس لیے کہ اس اسلوب گفتگو میں دعوے کے ساتھ اس کی دلیل بھی پنہاں ہوتی ہے۔گویا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کیا فلاں شخص آئے گا ؟اسے آنا چاہیے،کیونکہ وہ آنے پر قادر اور آنے کی استطاعت رکھتا ہے۔آیت کریمہ کی یہ تعبیر گویا ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی سے کہتے کہ کیا آپ میرے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں ؟ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ مخاطب ایسا کر سکتا ہے اوراس پر قدرت رکھتا ہے۔جیساکہ حدیث میں ہے کہ ایک تابعی یحیٰ المازنی رحمہ اللہ نے اپنے باپ صحابی رسول عبد اللہ بن زید بن عاصم رحمہ اللہ سے کہا:((ہَلْ تَسْتَطِیعُ أَنْ تُرِیَنِی کَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَتَوَضَّأُ؟)) ’’کیا آپ مجھے اسی طرح وضو کر کے دکھا سکتے ہیں جس طرح رسول اللہ صلیاللہ علیہ وسلم وضو کیا کرتے تھے ؟‘‘ حالانکہ انہیں علم ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔تو ان کے کہنے کہ کا مطلب یہ ہے کہ کیا آپ میری اس آرزو کو پورا کریں گے؟تو اس بحث کے تناظر میں آیت کریمہ کا مفہوم یہ سامنے آتاہے کہ اے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ! کیا اللہ تعالیٰ آپ کی درخواست پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان نازل کر دے گا؟اگرکر دے گا توپھر اللہ تعالیٰ سے سوال کریں کہ وہ
Flag Counter