اسے نازل کردے۔ (ج)…تیسری تعبیر یہ بیان کی گئی ہے کہ حواریوں کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کیا آسمان سے کھانے کا خوان نازل کرنا اللہ تعالیٰ کے قانونِ قدرت اور اس کی حکمتِ الہیہ کے مطابق ہے ؟تاکہ ہم اس کا مطالبہ کریں۔یا یہ مطالبہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اوراس کے قانونِ قدرت کے منافی ہے،کہ ہم اس سے باز رہیں،کیونکہ ایساکرنا اگرچہ ذات الٰہی کے لیے ناممکن نہیں ہے،لیکن اس کے قانون قدرت اوراس کی حکمت کے منافی ہونے کی وجہ سے اس کا مطالبہ کرنا ہمارے لیے جائز نہیں ہے۔گویا حواری یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا آسمان سے خوان کو نازل کرنا،اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے ازل سے کر رکھا ہے اور ہم اس کے مطالبے کے مجاز ہیں؟یا اللہ تعالیٰ نے ازل سے اس کا فیصلہ ہی نہیں کیا اور ہم اس کے مطالبے کے مجاز ہی نہیں ہیں؟ (د)… ابوحیان اندلسی رحمہ اللہ نے ’’ البحر المحیط‘‘ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’حواریوں کی بات کا مقصدیہ نہیں تھا کہ انہیں اس میں شک ہے،بلکہوہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کا اظہار چاہتے تھے کہ اللہ کی قدرت کاملہ کے سامنے یہ قطعاً مشکل نہیں ہے،وہ یقینا ہمارے لیے آسمان سے کھانے کا خوان نازل کر سکتا ہے۔جیسے ایک شخص کسی کمزور اوربوڑھے شخص کا ہاتھ تھام کر کہے کہ کیا حکمرانِ وقت ایسا کر سکتا ہے ؟اس سے اس کا مقصد یقینا یہ بتانا ہے کہ ہاں حکمرانِ وقت یقینا ایسا کر سکتا ہے،یہ بالکل واضح بات ہے،کوئی ذی ہوش انسان اس میں شک نہیں کر سکتا۔تو یہاں مقصد سوال نہیں،بلکہ ایک حقیقت ثابتہ کا اظہار ہے۔‘‘ (ھ)… علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’حواریوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں قطعاً شک کا اظہار نہیں کیا تھا،کیونکہ وہ سچے مومن اور بخوبی جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے خوان اتارنے اور ہر کام کی طاقت رکھتاہے،لیکن ان کا یہ علم دلیل،خبر اور عقل کی بنیاد پر تھا۔لہٰذا وہ اپنی |