Maktaba Wahhabi

103 - 148
آنکھوں سے اللہ کی قدرت کا نظارہ کرنا چاہتے تھے،جس طرح کے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب سے کہا تھا:﴿رَبِّ أَرِنِی کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَی﴾ (البقرۃ:260) کہ ’’اے میرے پروردگار !مجھے دکھا دے تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو علمِ خبری اورنظری تو حاصل تھا،لیکن وہ چاہتے تھے کہ حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں،اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے جس پر ایمان لانے کی دعوت انہیں دنیا کو دینا تھی۔کیونکہ علم خبری اور نظری میں شبہات اور اعتراضات کو دخل ہو سکتا ہے،لیکن مشاہدہ ء عینی میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔لہٰذا حواریوں نے کہا تھا:﴿وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا﴾کہ ’’(ہم بس یہ چاہتے ہیں)کہ ہمارے دل مطمئن ہوں۔‘‘ یہی بات ابراہیم علیہ السلام نے کہی تھی:﴿وَلَکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِی﴾ کہ ’’(ایمان تو رکھتا ہوں) مگر دل کا اطمینان درکار ہے۔‘‘ تو ثابت ہوا کہ حواری ایمان میں سچے تھے اوران کی طرف سے خوان اتارنے کا مطالبہ دلی اطمینان کیلئے تھا۔اس بنیاد پر فرمان الٰہی:﴿إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِین﴾(المائدہ:112) کا معنی یہ ہو گا کہ اگر تمہارا ایمان اور اخلاص مکمل ہے۔اور﴿وَنَعْلَمَ أَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا﴾ (المائدہ:113) کا معنی یہ ہو گا کہ ہم ایمان غیبی،یقین غیبی کے ساتھ تو جان چکے اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم مشاہدہ عینی کے ساتھ بھی اس حقیقت کو جان لیں۔‘‘ جب آیت ِکریمہ کی مذکورہ تمام تعبیرات آیت کی روح اور فحوائے کلام کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہیں اور اس آیت کے حقیقی منشا کے مطابق ہیں۔آیات کا سیاق وسباق بھی ان کی مکمل تائید کر رہا ہے اور اسالیب ِعربیہ اور بلاغت کی تعبیرات بھی ان تاویلات کی پشت پر کھڑی ہیں تو اس کے باوجود اس قراء ۃ کا انکار کرنا کسی طور بھی درست نہیں ہے۔بلکہ ضروری ہے کہ اسے پورے اطمینان و یقین کے ساتھ قبول کر لیاجائے،اورمنکرین کو دو ٹوک جواب دیا جائے۔اس واضح حقیقت کے ساتھ ساتھ یہ قراء ۃ متواتر ہے اور ایسے یقینی اور
Flag Counter