قطعی ذریعہ سے ثابت ہے،جس سے اعراض اور اس مسلمہ امر میں شک و تردد کی قطعاً کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ (۵)۔ اس حوالہ سے پانچویں مثال جو گولڈ زیہر نے پیش کی ہے،وہ سورۃ الانبیاء کی یہ آیت مبارکہ ہے: ﴿قَالَ رَبِّ احْکُمْ بِالْحَقِّ وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ﴾ (الانبیاء:112) اس کے ضمن میں گولڈ زیہر نے اپنی کتاب کے صفحہ 37 پر یہ لکھا ہے: ’’قراء میں سے ایک ثقہ قاری کو یہ اچھا نہیں لگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کا مطالبہ کریں۔گویا اللہ کے بارے میں یہ امکان بھی موجود ہے کہ وہ ناحق فیصلہ بھی کر دیتا ہے۔لہٰذااس شبہ کے ازالہ کے لیے اس نے حرکات کی تبدیلی کا سہارا لے کر امر حاضر کے صیغہ کو صیغۂ ’’ا سم تفضیل‘‘ سے بدل دیا اور سلسلہ کلام نے انشاء کی بجائے یوں خبر کا روپ دھار لیا:﴿رَبِّ أحْکُمُ بِالْحَقِّ﴾ یعنی میرا رب کسی بھی حاکم سے بڑھ کر حق فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘ اب گولڈ زیہر کے اقتباس کے نکات پر ہمارا تبصرہ ملاحظہ فرمایئے: ٭ گولڈ زیہر کا یہ دعویٰ کہ اس قراء ۃ کا راوی ثقہ قراء میں سے ہے،سراسر جھوٹ اور خیانت در خیانت کے مترادف ہے۔اس قراء ۃ کا راوی ضحاک بن مزاحم (م105ھ) ہے۔ اور ضحاک رحمہ اللہ کا سرے سے طبقہ قراء ہی سے کوئی تعلق نہیں ہے،چہ جائیکہ کہ اس کا تعلق مستند قراء سے ہو۔اس پر مستزاد یہ کہ ضحاک سے قراءات کے مسلمہ معیار اوراصولوں کے مطابق ایک بھی قابل اعتماد قراء ۃ مروی نہیں ہے۔ ٭ اگر ضحاک رحمہ اللہ نے اپنی طرف سے امر حاضر کے صیغہ کو صیغۂ ’’اسم تفضیل‘‘ سے بدلا بھی ہے،تو اس سے قراءات کی حجیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ہم بارہا دفعہ قطعی دلائل سے یہ واضح کر چکے ہیں کہ کوئی بھی قراء ۃ اس وقت تک قابل التفات نہیں ہے جب تک وہ |