Maktaba Wahhabi

105 - 148
انتہائی مستند ذریعہ سے براہ راست نقل در نقل ثابت نہ ہو۔[1] ٭ گولڈ زیہر کے دماغ نے آیت میں لفظ ’’الحق‘‘ کے معنی کو سمجھنے میں بھی لغزش کھائی ہے۔گولڈ زیہر نے اسے عدل کے معنی میں لیا ہے،جس کا معنی ہے کہ ظلم و نا انصافی سے احتراز کر تے ہوئے ہر چیز کواس کے موقع و محل پر رکھنا۔حقیقت یہ ہے کہ یہاں آیت میں ’’الحق‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اے اللہ! ان کفار ومشرکین کے لیے سزا کا فیصلہ جلدی فرمادے۔ دنیا میں ہی ان پر اپنا عذاب مسلط کر دے اور انہیں روزِ قیامت تک ڈھیل نہ دے۔یہ ہے وہ حق،کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے رب سے اس کے مطابق کافروں کے خلاف فیصلہ کرنے کی درخواست کریں۔اسی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:((اللّٰہُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَکَ عَلَی مُضَرَ)) کہ ’’اے اللہ !قبیلہ مضر کو سختی سے کچل دے۔‘‘ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت﴿رَبِّ احْکُمْ بِالْحَقِّ﴾ کے بارے میں فرمایا ہے: ’’صرف اللہ تعالیٰ ہی تو ہے جو حق کے مطابق فیصلہ کرتا ہے،لیکن یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کو جلد دنیا میں ہی سزا سے دوچار کرنے کا سوال کیا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا کو قوم کے خلاف قبول کیا اور انہیں غزوہ بدر میں سخت سزا کا مزا چکھا دیا۔‘‘ ہم گولڈ زیہر سے پوچھتے ہیں کہ مذکورہ آیت اور سورۃ الاعراف کی یہ آیت:﴿رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِینَ﴾ (الاعراف:89) دونوں ایک ہی معنی میں ہیں،تو پھر اس آیت کو تمام قراء نے بالاتفاق ایک ہی طریقہ پر کوں پڑھا ہے؟ اگر تبدیلی کا باعث آپ کا یہی مزعومہ خدشہ تھا تو پھر یہاں ’ثقہ قاری‘ کو اس کا خیال
Flag Counter