کیوں نہیں آیا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ قراء ۃ ایک منکر قراء ۃ ہے۔قراءات متواترۃ کے دس قراء میں سے کسی نے اسے روایت نہیں کیا۔اور نہ ہی قراءات شاذۃ کے چار قراء میں سے کسی نے اسے روایت کیا ہے،جو بالاتفاق شاذ اور قابل رد ہیں۔ اور ضحاک کی طرف منسوب یہ قراء ۃ انتہائی شاذاور پرلے درجے کی غریب اور منکر قراء ۃ ہے۔کوئی ذی ہوش انسان ایسی قراء ۃ کو پرکاہ کے برابر بھی حیثیت دینے کا روادار نہیں ہو سکتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ قراء ۃ رسم مصحف عثمانی کے بھی خلاف ہے کیونکہ اس میں لفظ (رب) کے بعد یاء کا اضافہ ہے۔ اورامت کے تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ہر وہ قراء ۃ جو مصاحف عثمانیہ کے رسم کے خلاف ہو،قابل رد ہے۔ (۶)۔ چھٹی مثال جو گولڈ زیہر نے اس حوالہ سے پیش کی ہے،وہ سورۃ البقرۃ کی یہ آیت مبارکہ ہے: ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آیَۃٍ أَوْ نُنْسِہَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِنْہَا أَوْ مِثْلِہَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّٰہَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ﴾ (البقرۃ:106) گولڈ زیہر نے اس آیت کے ضمن میں،اپنی کتاب کے صفحہ 38 پر جو کچھ لکھا ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس نے بعض علماء کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے پہلے نون کی پیش اور دوسرا نون ساکن اور سین کی زیر کے ساتھ ’’نُنْسِہَا‘‘ کی قراء ۃ کو نامناسب اوربعید خیال کیا ہے۔[1] حالانکہ یہ متواتر قراء ۃ ہے جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک کثیر تعداد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست حاصل کیا،پھر ان سے تابعین کی ایک بڑی تعداد نے حاصل کیا،اسی طرح ہر |