Maktaba Wahhabi

169 - 180
’’جب اللہ تعالیٰ تیرے پاس مال لے آئے پس اللہ تعالیٰ کی نعمت و کرامت تجھ پر نظر آنی چاہیے۔ ‘‘ اور فرمایا: ((إِذَا أَتَاکَ اللّٰہُ مَالًا فَلْیُرَ عَلَیْکَ فَإِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ أَنْ یُّرٰی أَثَرَہٗ عَلٰی عَبْدِہِ حَسَنًا وَلَا یُحِبُّ الْبُؤْسَ التُّبَاؤُسَ۔))[1] ’’جب اللہ تعالیٰ تیرے پاس مال لے آئیں (مال دے دیں ) تو تجھ پر نظر آنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کا اچھا اثر اپنے بندے پر دیکھنا چاہتے ہیں اور مفلس (بہت حاجت مندی کو ظاہر کرنا) اورمفلسی کو بہانہ کرنے (تکلف کے ساتھ مفلس بننے ) کو پسند نہیں فرماتے۔ ‘‘ تو مذکورہ احادیث مبارکہ ان علماء و قراء کے لیے لمحہ فکریہ ہیں جو نہ تو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال کو اپنی جان پر ہی خرچ کرتے ہیں بلکہ زہد کو ظاہر کرنے اور روپے بٹورنے کے لیے ایسی مسکینی والی شخصیت بنا کر لوگوں کے پاس جاتے ہیں کہ لوگ خود ہی ترس کھانے لگتے ہیں جس سے ایک تو اس داعی، عالم کی شخصیت لوگوں کے ہاں گر جاتی ہے وہ اس کو لائق اعتناء نہیں سمجھتے۔ دوسرا اسلام کی اصلیت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔ اور یہ کوئی زندگی ہے کہ نہ انسان اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے نہ اپنی ہی جان پر اور بچوں پر بلکہ یہ تو شرمندگی ہی شرمندگی ہے۔ مال کا نہ ہونا یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے لیکن ہو پھر اسے جوڑا جائے اور اپنی جان پر بھی خرچ نہ کیا جائے تو اس سے بڑھ کر کون بدقسمت و بدبخت ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے لیکن وہ وارثوں کے لیے جوڑے جا رہا ہے اسی قسم کے لوگوں کے لیے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ((إِنَّ الدُّنْیَا مَلْعُوْنَۃٌ مَلْعُوْنٌ مَا فِیْہَا إِلَّا ذِکْرُ اللّٰہِ وَمَا وَالَاہٗ أَوْ
Flag Counter