’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ چیز نہ پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔ ‘‘ تو اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کافر نہیں کہلواتا تو کسی کو معین کافر کیوں کہتا ہے اگر خود کو ملعون کہلاتا نہیں تو کسی کو کیوں کہتا ہے اور مومن تو لعنت کسی پر کرتا ہی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا یَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ لَعَّانًا۔))[1] ’’مومن لعنت کرنے والا نہیں ہوتا۔ ‘‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((لَا یَکُوْنُ اللَّعَّانُوْنَ شُفَعَائَ وَلَا شُہَدَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔))[2] ’’قیامت کے دن لعنت کرنے والے نہ کسی کے سفارشی بن سکیں گے نہ گواہ۔ ‘‘ اس لیے جن لوگوں کے بارے یقینی علم نہ ہو کہ وہ کافر ہی ہی مرے ہیں، ان کا خاتمہ کفر پر ہی ہوا، ان پر لعنت کرنا جائز نہیں اگر پتہ ہو یقینی طور پر تو پھر جائز ہے لیکن اس کے علاوہ کسی سے بڑے سے بڑا گناہ ہو جائے تو اس پر لعنت کرنا جائز نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ مرنے سے پہلے اس نے پکی توبہ(توبہ نصوحہ) کر لی ہو جس کا ہمیں علم نہیں البتہ جن بعض معاصی پر لعنت کا لفظ آیا ہے ان کے مرتکبین کی بابت یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لعنت والے کام کر رہے ہیں اور اگر اُنھوں نے ان گناہوں سے توبہ نہ کی تو بارگاہ الٰہی میں ملعون قرار پا سکتے ہیں۔ اس لیے جب داعی زبان میں نرمی کو دور کر دیتا ہے تو پھر یہ بھی کہنے سے باز نہیں آتا کہ فلاں جہنمی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((إِنَّ رَجُلًا قَالَ وَاللّٰہِ لَا یَغْفِرُ اللّٰہُ لِفُلَانٍ قَالَ اللّٰہُ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَتَأَلّٰی عَلَیَّ أَنْ لَّا أَغْفِرَ لِفُلَانٍ؟ فَإِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لِفُلَانٍ |