Maktaba Wahhabi

131 - 492
اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو قطع رحمی کرو گے۔کیونکہ سوکنوں کے درمیان غیرت اور قابت پائی جاتی ہے اس لیے جب ایک دوسری کی قریبی رشتہ دار ہو گی تو ان دونوں کے درمیان قطع رحمی پیدا ہو جا ئے گی لیکن جب خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو پھر اس کے لیے سالی اور بیوی کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح کرنا حلال ہو گا کیونکہ اس وقت ممانعت ہی باقی نہیں رہی۔ 6۔ بیک وقت چار بیویوں سے زیادہ کو نکاح میں رکھنا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ’’اگر تمھیں خدشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو تمھیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو۔دودو تین تین اور چار چار سے۔لیکن اگر تمھیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے۔‘‘[1](شیخ محمد المنجد) چار سے زیادہ عورتوں سے شادی:۔ سوال۔کیا کوئی شخص چار سے زیادہ عورتیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے؟ جواب۔آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ بیک وقت ایک سے زیادہ عورتیں اپنے نکاح میں رکھے لیکن ایک سے زیادہ کی حد چار ہے۔جیسا کہ قرآن میں ہے کہ: ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا﴾ "اگر تمھیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمھیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو۔دودو تین تین چار چار سے لیکن اگر تمھیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمھاری ملکیت کی لو نڈی یہ زیادہ قریب ہے کہ(ایسا کرنے سے ناانصافی اور)ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ۔" [2]
Flag Counter