کی طرف دھکیل دیتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ فِتْنًا کَقِطْعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِیْ کَافِرًا وَیُمْسِیْ مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا یَبِیْعُ أَحَدُکُمْ دِیْنَہٗ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا قَلِیْلٍ۔))[1] ’’اعمال (صالحہ) میں جلدی کیا کرو کیونکہ اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح فتنے ہوں گے حتیٰ کہ صبح کے وقت ایک شخص مومن ہوگا تو شام کو کافر اور اگر شام کو مومن ہوگا تو صبح کے وقت کافر اور وہ اپنے دین کو دنیا کے تھوڑے سے مال و متاع کے بدلے بیچ دے گا۔‘‘ اور یہی علامت ہے قرآنی علم اور عمل کے اُٹھ جانے کی جس کے بارے زیاد بن لبید بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کا تذکرہ کیا اور فرمایا یہ اس وقت ہوگا جب علم اُٹھ جائے گا میں نے کہا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! علم کیسے اُٹھ جائے گا ؟ ہم قرآن پڑھتے ہیں اپنے بیٹوں کو پڑھاتے ہیں اور اسی طرح ہمارے بیٹے اپنے بیٹوں کو پڑھائیں گے قیامت تک تو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ثَکَلَتْکَ أُمُّکَ یَا زِیَادُ ! إِنْ کُنْتُ لَأَرَاکَ مِنْ أَفْقَہِ رَجُلٍ بِالْمَدِیْنَۃِ أَوَ لَیْسَ ہٰذِہِ الْیَہُوْدُ وَالنَّصَارٰی یَقْرَئُ وْنَ التَّوْرَاۃَ وَالْإِنْجِیْلَ لَا یَعْلَمُوْنَ بِشَیْ ئٍ مِمَّا فِیْہِمَا۔))[2] ’’تیری ماں تجھے گم پائے اے زیاد ! میں تجھے مدینے کا فقیہ آدمی سمجھتا ہوں کیا یہ یہودی اور عیسائی تورات اور انجیل نہیں پڑھاتے تھے ؟ لیکن ان دونوں میں جو کچھ تھا عمل نہیں کرتے تھے۔ ‘‘ (اسی لیے آج ان کے پاس اصل تورات وانجیل مفقود ہے ) اور حقیقت یہ ہے کہ قرآنی |