Maktaba Wahhabi

40 - 114
گیا اور اس کی موت کی خبر آپ کو پہنچائی گئی تو آپ پر رنج وغم سے متعلق کچھ تغیر نہ ہوا اور فرمایا سگ بچہ مر گیا ہے، اس کو باہر پھینک دو۔ اور جب سید البشر علیہ الصلوۃ والسلام کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام اس قدر غمگین ہوئے کہ آنسو نکل آئے اور فرمایا: اے ابراہیم علیہ السلام ، ہم تیری جدائی کی وجہ سے بہت غمگین ہیں اور بڑے مبالغے اور تاکید کے ساتھ غم واندوہ کا اظہار فرمایا۔ فرمائیں کہ حضرت شکر گنج بہتر ہیں یا حضرت سید البشر علیہ الصلوۃ والسلام ؟ عوام کالانعام کے نزدیک پہلا معاملہ بہتر ہے اور اس کو بے تعلق جانتے ہیں اور دوسرے کو عین تعلق اور اولاد سے لگاؤ خیال کرتے ہیں۔“ [1] گواتم بدھا (متوفی 400 قبل مسیح) نے اپنے غور وفکر کے نتیجے میں جو صداقتیں معلوم کیں اور ان کی روشنی میں اپنے مذہب بدھ مت کی بنیاد رکھی، ان میں سے ایک یہ تھی کہ دنیا میں دکھ ہی دکھ ہے۔ دوسری یہ تھی کہ دنیا کے دکھوں کا سبب دنیاوی اشیاء سے تعلق اور اس کی خواہش ہے کہ جب انسان کا کوئی دنیاوی تعلق ٹوٹ جاتا ہے یا اس کی کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی تو اسے دکھ پہنچتا ہے۔ اور تیسری صداقت اس نے یہ معلوم کی کہ انسان اگر اپنے دکھ کا علاج کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہے کہ دنیا کی چیزوں سے ہر قسم کا تعلق ختم کر لے اور اپنی خواہشات کو مار دے۔ پس جب نہ تعلق (attachment) رہے گا اور نہ ہی خواہش(desire) تو تعلق کے ٹوٹنے اور کسی خواہش کے پورا نہ ہونے پر جو دکھ پہنچتا ہے، تو وہ کبھی نہ پہنچے گا۔ دین اسلام میں تعلقات اور خواہشات کو ختم کرنے کی بجائے ، انسانی تعلقات کو اللہ کے تعلق کے تابع رکھنے اور خواہشات کو قابو میں رکھنے کا حکم ہے۔ مال ودولت، بیوی بچوں اور مقام وعہدے کی محبت تو خود اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھی ہے اور مطالبہ یہ نہیں کیا کہ انہیں اپنے دل سے نکال باہر کرو بلکہ یہ کہا ہے کہ انہیں اللہ کی محبت کے تابع رکھو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِيْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَا اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ﴾ [2] ”(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دیں کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔“
Flag Counter