”سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا سے یہ پوچھا گیا کہ کیا سلف (صحابہ) میں سے کوئی ایسا تھا کہ جسے خوف خدا کی وجہ سے غشی کے دورے پڑتے ہوں تو انہوں نے کہا: نہیں، لیکن اُن کا خوف تو رونا تھا۔“ سیدنا ہشام بن حسان رحمہ اللہ(متوفیٰ 147ھ) سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا: عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، قَالَ: قِيلَ لِعَائِشَةَ: إِنَّ قَوْمًا إِذَا سَمِعُوا الْقُرْآنَ صَعِقُوا. فَقَالَتْ: الْقُرْآنُ أَكْرَمُ أَنْ تَنْزِفَ عَنْهُ عُقُولُ الرِّجَالِ، وَلَكِنَّهُ كَمَا قَالَ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ:﴿ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ﴾. [1] ”کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جب قرآن مجید سنتے ہیں تو بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا: قرآن مجید اس سے پاک ہے کہ اُسے سن کر لوگوں کی عقل جاتی رہی (یعنی عقل کا جاتے رہنا تو نقص ہے نہ کہ خوبی اور قرآن مجید کے استماع سے نقص تو پیدا ہونے سے رہا) لیکن جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے کہ جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں تو قرآن مجید سن کر اُن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔“ پس قرآن مجید کو خوبصورت آواز میں پڑھنا اور سننا یہی سماع ہے جو اہل ایمان سے مطلوب ہے۔ اور اس سماع سے پیدا ہونے والے احوال قرآنی احوال کہلاتے ہیں کہ جو عباد الرحمن کے احوال ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، يُحَدِّثُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ((زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ)) [2] ”سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن مجید کو اپنی آوازوں سے خوبصورت کرو۔“ اور قرآن مجید کو خوبصورت طور پر پڑھنے سے مراد اس کو پڑھتے ہوئے منہ کے زاویے بنانے میں تکلف کرنا نہیں بلکہ لب ولہجے میں خشوع اور للہیت کا ہونا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ((إِنَّ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صَوْتًا بِالْقُرْآنِ، الَّذِي إِذَا سَمِعْتُمُوهُ يَقْرَأُ، حَسِبْتُمُوهُ يَخْشَى اللّٰه)) [3] ” سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین آواز میں قرآن پڑھنے والا وہ ہے کہ جب تم |