Maktaba Wahhabi

35 - 114
احادیث میں آلات موسیقی سے اجتناب کا حکم اس لیے بھی ہے کہ یہ انسان کو بے خودی اور مدہوشی کی ایسی کیفیت میں لے جاتے ہیں کہ اگر سامع کا رخ مخلوق کی طرف ہو تو شراب اور زنا جیسی منکرات میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگر خالق کا قصد ہو تو وجد اور سکر میں مبتلا ہو کر شطحیات میں پڑ جاتا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ((لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ، يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ وَالحَرِيرَ، وَالخَمْرَ وَالمَعَازِفَ)) [1] ”میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور آلات موسیقی کو حلال کر لیں گے۔“ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ، مِزْمَارًا قَالَ: فَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَى أُذُنَيْهِ، وَنَأَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَقَالَ لِي: يَا نَافِعُ هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا؟ قَالَ: فَقُلْتُ: لَا، قَالَ: فَرَفَعَ إِصْبَعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ، وَقَالَ: ((كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَسَمِعَ مِثْلَ هَذَا فَصَنَعَ مِثْلَ هَذَا)) [2] ”سیدنا نافع رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے مزمار کی آواز سنی تو اپنے دونوں کانوں میں اپنی انگلیاں ڈال لیں اور دوسرا راستہ اختیار کر لیا۔ اور مجھ سے پوچھا: کیا اب آواز آ رہی ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں سے باہر نکال لیں اور کہا: میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ آپ کو ایسی ہی آواز سنائی دی تو آپ نے ایسا ہی کیا جیسا کہ میں نے کیا ہے۔“ رہی صوفیا ء کی نیت، زمان، مکان اور اخوان کی شروط کے ساتھ سماع کے جواز کی بات تو ان شروط کے عدم جواز کے بارے عبد الرحمن بن عبد الرحیم القرشی کے مقالہ ”السماع عند الصوفية: عرض ونقد على ضوء عقيدة أهل السنة والجماعة“ کا مطالعہ مفید رہے گا۔ پس جائز سماع وہی ہے جو قرآن مجید کا ہے جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں: عَنِ النَّبِيِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، أَنَّهُ قَالَ: ((يَا أَبَا مُوسَى لَقَدْ أُعْطِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ)) [3] ”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے کہا: تجھے آل داؤد کے مزامیر میں سے ایک مزمار (sweet melodious voice)دیا گیا ہے۔“
Flag Counter