عباس رضی اللہ عنہما ، بہت بڑے فقیہ عبداللہ ابن مسعود اور أقرأ الصّحابة اُبی بن کعب بھی شامل ہیں، قرآنِ کریم کے ظاہری معنیٰ میں غلطی کر جاتے ہیں، لہٰذا ہم ان کی تفسیر کے پابند نہیں۔ ان کے اس دعویٰ میں پوری امت ان کے کی مخالف ہے کوئی بھی عقلمند، صاحبِ ایمان اس قسم کی بات تسلیم نہیں کرسکتا۔ ہم مثالوں کے ذریعے اس بات کی وضاحت کی کوشش کرتے ہیں: مثال نمبر 1: اگر کوئی ایسا شخص جس کی اپنی زبان اُردو ہو او ر وہ عربی زبان کو سیکھ کر اس میں بھی خوب مہارت پیدا کرلے، پھر اگر وہ عربی اخبار کا مطالعہ کرکے اس میں موجود کسی خبر سے کوئی استدلال کرے تو اس کا یہ استدلال ہر ذی شعور تسلیم کرے گا اور اگر کوئی یہ کہے کہ اس کا استدلال اس لئے معتبر نہیں کیونکہ یہ اخبارکا ترجمہ ہے اور مترجم اگرچہ زبان میں پوری مہارت رکھتا ہے اور دانستہ طور پر جھوٹ بھی نہیں لکھ سکتا لیکن اس کے فہم میں غلطی ہوسکتی ہے تو اس شخص کی بات کوئی عقلمند تسلیم نہیں کرے گا۔ مثال نمبر2: اگر آج کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (متوفیٰ150ھ) کے کلام کا مطلب جو امام محمد رحمہ اللہ (متوفیٰ189ھ)، امام ابویوسف رحمہ اللہ (متوفیٰ182ھ)اور امام زفر رحمہ اللہ (متوفیٰ158ھ) وغیرہ بیان کرتے ہیں وہ غلط ہے اور صحیح مطلب یوں ہے، یا امام شافعی رحمہ اللہ کے کلام کا مطلب ان کے شاگردوں نےغلط سمجھا ہے جبکہ صحیح یوں ہے۔ تو کیا ایسے شخص کی عقل پر ماتم نہ کیا جائے گا؟ مگر افسوس کہ اگر ایسی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کی جائے تو کسی کو پرواہ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علومِ عربیہ یعنی نحو، صرف، معانی، بیان وغیرہ قرآن و حدیث سے ماخوذ ہیں یا پھر پرانے عربوں کے ادب سے، کیونکہ یہ علوم استقرائی ہیں اور استقرائی علم وہ ہوتا ہے جسے جزئیات سے اخذ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علوم میں قرآن و حدیث اور عربِ اُول کی نثرونظم کوبطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی مسلم ہے کہ قرآن و حدیث یا عربِ اوّل کے کلام سے علومِ عربیہ کو اخذ کرنا تبھی ممکن ہے جب ان اصول ثلاثہ کو صحیح طورپر سمجھا جائے بالخصوص علم بلاغت کے مسائل اخذ کرنے میں تو متکلم کی مراد کا پوری طرح ادراک اور فہم ضروری ہے کیونکہ اس علم میں بنیادی طور پر بحث ہی اس بات پر ہوتی ہے کہ متکلّم کو اپنا مافی الضمیر کس طرح ادا کرنا چاہئے، کلمات کس قسم کے استعمال کرے اور کلمات کو باہم ربط کیونکر دے؟ الغرض ثابت یہ ہوا کہ علومِ عربیہ دراصل ائمہ لغت کی درایت تفسیری کے تابع ہیں، چنانچہ علومِ عربیہ کو ماننا اور قرآن و حدیث یا عرب اوّل کے کلام کا صحیح مطلب جاننے کیلئے ان کو بطور دلیل پیش کرنا علمائے لغت کی درایت تفسیری کو ماننے کا بیّن ثبوت ہے۔ علومِ عربیہ کو ماننا اور قرآن وحدیث کا صحیح مطلب سمجھنے میں ائمہ لغت کی درایت تفسیری کوبطور دلیل پیش کرنا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی درایت تفسیری کو حجت نہ ماننا نہایت افسوسناک امر ہے او ریہ رویّہ اس بات پر غماز ہے کہ منکرین حجیت تفسیرصحابہ کے نزدیک حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل زبان ہونے کے باوجود اہل زبان کے برابر بھی لغتِ عرب میں مہارت نہیں رکھتے تھے۔ |