Maktaba Wahhabi

77 - 110
مرد کی دیت سے آدھی ہے۔اس مضمون کی اشاعت کے بعد بعض احباب کے ساتھ مناقشہ کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ عورت کی دیت کے مسئلے پر شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کا موقف ہی درست ہے کیونکہ اسلام میں عورت کے حق کو ہلکا نہیں سمجھا گیا ہے بلکہ اسے بھی مردوں کی مانند حقوق سے نوازا گیا ہے۔چنانچہ اس مسئلے پر مزید کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کے موقف کی کمزوری اور جمہور کے موقف کی حقانیت واضح ہو سکے ۔زیرِ نظر استدراک میں احادیث نبویہ، آثار سلف، اجماع اور قیاس سے استدلال کرتے ہوئے راجح موقف کواجاگر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں عورتوں کو عظیم الشان مقام ومرتبہ عطا فرمایا ہے اور انہیں بھی مردوں کی مانندمتعدد حقوق سے نوازا ہے۔ دورِ جاہلیت میں عورتوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، لیکن اسلام نے آ کر اس سے منع کر دیا اور اسے ناقابل معافی جرم قرار دیا۔ اسلام نے عورتوں کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئےان کا نان و نفقہ ان کے ورثاء پر فرض کیا، نکاح کے معاملے میں ان کی رضامندی کو ضروری قرار دیا، انہیں حق مہر سے نوازا اور وراثت کا حق دیا، حالانکہ دور جاہلیت میں عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا۔ عورتوں کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا فخر کی بات ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نام سے قرآن مجید میں ایک پوری سورت’’سورۃ النساء‘‘ نازل فرما دی ہے، حالانکہ مردوں کے نام سے کوئی سورت موجود نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ((اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ المَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلاَهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ)) [1] ’’عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو، بے شک عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے،اور اوپروالی پسلی سب سے ٹیڑھی ہوتی ہے، اگر تم اسے سیدھا کرو گے تو توڑ بیٹھو گے اور اگر چھوڑ دو گے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی، پس تم عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔‘‘ عورتوں کے اسی مقام و مرتبے کو سامنے رکھتے ہوئے اکثر شرعی احکام میں عورتوں اور مردوں کو مساوی قرار دیا گیا ہے، لیکن بعض مخصوص احکام میں شرعی حکمتوں اور عظیم مقاصد کے پیش نظر عورتوں کو مردوں کی نسبت نصف معاملے پر قائم رکھا ہے۔ اوراس کا سبب بھی عورتوں کی شخصی توہین یا استخفاف نہیں ہے بلکہ اسلامی معاشرے میں ان پر مالی ذمہ داریاں کے بوجھ کا نہ ہونا ہے، کیونکہ عورت نان ونفقہ اور حق مہر جیسے متعدد مالی حقوق تو حاصل کرتی ہے لیکن شریعت میں اس پر کوئی مالی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی ہے۔ورنہ ذاتی امور میں سے بعض
Flag Counter