ان کتب میں جو کچھ بھی مرقوم ہے، وہ صحیح اور درست ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بعض مفسرین نے ﴿ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ﴾ کی تفسیر میں دس اقوال نقل کیے ہیں، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی جو تفسیر منقول ہے وہ یہود ونصاریٰ ہی ہے۔ محدّث ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں سرے سے مفسرین کے مابین کوئی اختلاف موجود ہی نہیں۔ [1] عقلی تفسیر کا آغاز شروع میں انفرادی فہم وادرک سے ہوا اور اس کی روشنی میں بعض اقوال کو بعض کے مقابلہ میں ترجیح دی جانے لگی۔ شروع میں اسے اچھی نظر سے دیکھا گیا بشرطیکہ اسکا انحصار قرآنی کلمات کے معنیٰ ومفہوم اور عربی لغت پر ہوتا۔ پھر مختلف ومتنوع علوم ومعارف اور متضاد افکار کے زیر اثر اس کے دائرہ میں وسعت آتی چلی گئی۔ نتیجہ کے طور پر ایسی کتبِ تفسیر منظر عام پر آئیں جن میں تفسیر کے سوا اور سب کچھ موجود تھا۔ اس دَور میں صرف ونحو اور عربی لغت سے متعلق علوم مدوّن ہوئے۔ فقہی مذاہب ظہور پذیر ہوئے۔ کلامی مسائل عام ہوئے۔ عباسی خلافت میں گروہی تعصّب اپنی انتہاء کو پہنچ گیا۔ مختلف اسلامی فرقے اپنے مخصوص افکار وعقائد کی دعوت دینے لگے۔ فلسفہ سے متعلق کتب کا ترجمہ کیا گیا۔ یہ سب علوم اور ان کے متعلقات تفسیر کے ساتھ گھل مل گئے کہ جس کے نتیجہ میں نقل کا پہلو مغلوب اور عقلی پہلو غالب ہوگیا۔ جو شخص بھی کسی علم وفن میں کمال رکھتا تھا، اس کی تفسیر اسی علم تک محدود رہ گئی۔ ہر مفسر نے قرآن کو اپنے مذہب کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ یہ منطقی وعقلی میلان جاری رہا اور بعض ادوار میں اسے بڑی مقبولیت ملی۔ عصر حاضر میں بھی ایسے مفسر موجود ہیں جن کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قرآن کو ظاہری وباطنی طور پر عصری علوم کا گنجینہ ثابت کر دیں۔ انکے نزدیک گویا قرآن کے وجوہ اعجاز میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ زمانہ کے ساتھ چل سکے۔ حق بات یہ ہے کہ یہ قرآن کریم کے ساتھ غلو ہے جس سے قرآن اپنے اس ہدف ونصب العین سے نکل جاتا ہے جس کے لئے اسے اتارا گیا۔ لیکن اس عقلی تفسیر کے باوجود بھی تفسیر بالمنقول کا تصور بالکل ختم نہ ہوسکا۔ مختلف ادوار میں ایسے علمائے ربانی موجود رہے جو اس طوفان کا مقابلہ کرنے کیلئے سینہ سپر ہوگئے۔ چنانچہ انہوں نے خالص نقلی انداز میں قرآن کی تفسیریں لکھیں اور ان میں سے بعض اس سلسلے میں صحیح وسقیم روایات میں امتیاز بھی نہ کر سکے۔ تدوین اُصولِ تفسیر جب علمائے کرام نے تفسیروں میں وضع واختراع، صحیح وسقیم اقوال، اسرائیلیات کی بہتات ، فقہی اور کلامی بحثوں کی یہ صورتحال دیکھی، تو متاخرین کی تفسیروں کا تقابل متقدمین کی تفسیروں سے کیا ۔پس لا محالہ ان میں یہ فکر پیدا ہوئی کہ ان اصول وقواعد کو مدون کیا جائے جو قرآنِ کریم کے فہم اور تفسیر میں ممد ومعاون ثابت ہو سکیں |