اداریہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محترم قارئین کرام! اس وقت رشد کا چھٹا شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس شمارے میں پہلا مضمون ’’اجتماعی اجتہاد کا مفہوم: ایک ارتقائی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے ہے کہ جسے راقم نے ترتیب دیا ہے۔ اجتماعی اجتہاد ایک جدید اصطلاح ہے جبکہ اس کا تصور قدیم ہے۔ اجتماعی اجتہاد سے مراد یہ ہے کہ علماء کی ایک جماعت مل کر قرآن وسنت کی گہرائیوں اور وسعتوں سے کسی مسئلے کا شرعی حکم نکالنے کے لیے مقدور بھر کوشش کرے۔ آج کل مسلم دنیا کے بہت سے ممالک میں علماء کی سرکاری اور غیر سرکاری قسم کی مجالس اور کمیٹیاں جدید مسائل میں اجتماعی فتویٰ جاری کرتی ہیں جو کہ اجتماعی اجتہاد ہی کی صورتیں ہیں۔ عصر حاضر میں کچھ علماء نے اجتماعی اجتہاد کے اس عمل کو جامع مانع تعریف کی صورت میں مدون کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس کے نتیجے میں اجتماعی اجتہاد کی کوئی دس کے قریب اصطلاحی تعریفات وضع ہو چکی ہیں۔ اس مقالے میں ان جمیع تعریفات کا تقابلی اور تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے اس عمل کے لیے مناسب تعریف اور اس کے لیے متعلقہ الفاظ کے انتخاب کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ دوسرے مقالے کا موضوع ’’اصول تفسیر کی تاریخ وتدوین‘‘ ہے۔ قرآن مجید کی تفسیر جن اصولوں کی روشنی میں کی جاتی ہے، وہ اصول تفسیر کہلاتے ہیں۔ اس مقالہ میں اصول تفسیر کی تاریخ اور تدوین ہر سیر حاصل بحث کی گئی ہے کہ وہ کون کون سے مصادر یا فنون ہیں کہ جن میں اصول تفسیر سے متعلق ابحاث مدون ہوئی ہیں۔ یہ واضح رہے کہ اصول تفسیر کے نام سے اصول تفسیر پر بہت کم کتب لکھی گئی ہیں جبکہ اصول تفسیر کا بیان اکثر طور امہات تفاسیر کے مقدمات، علوم قرآن کی کتب اور اصول فقہ کے مصادر وغیرہ میں ہوا ہے۔ مقالے میں نہ صرف دور صحابہ اور دور تابعین میں تفسیر کے مصادر اور اصولوں کو بیان کیا گیا ہے بلکہ ان دونوں ادوار کی تفاسیر کی امتیازی خصوصیات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرے مقالے کا عنوان ’’خبر واحد کی حجیت: محدثین اور فقہاء کا نقطہ نظر‘‘ ہے۔ قرآن مجید ہو یا سنت رسول، دونوں کے منتقل ہونے کا بنیادی ذریعہ خبر ہی ہے۔ خبر واحد سے مراد ایسی خبر ہے کہ جسے نقل کرنے والے ایک، دو یا تین افراد ہوں۔ قرآن مجید اور خود سنت بھی اس بات پر متفق ہے کہ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل اور تقریر (silent assertion) جب خبر واحد کے ذریعہ سے مخاطب تک پہنچے، تو وہ اس کے حق میں حجت (binding) بن جاتا ہے بشرطیکہ وہ خبر صحیح (authentic) ہو۔ اور خبر کے صحیح ہونے کی پانچ شرائط ہیں کہ سند میں راوی عادل ہوں، ضابط ہوں، سند میں انقطاع نہ ہو، سند اور متن میں شذوذاور علت نہ ہو۔ اور فقہاء کی اکثریت نے بھی خبر کے صحیح ہونے میں اسی معیار کو قبول کیا ہے۔ |