Maktaba Wahhabi

56 - 117
اورحدیث سے مسائل کا استخراج فقہاء کرام رحمہم اللہ کا موضوع ہیں۔تحقیق روایت کے لیے محدثین کاانداز اِسناد ومتن دونوں کی تحقیق کرنا ہے، جبکہ تاویل حدیث کے لیے فقہاءمعمول بہ روایات ِصحیحہ یعنی قابل استدلال صحیح روایات سامنے رکھتے ہیں اور غیر معمول بہ روایات صحیحہ پر توقف کرتے ہیں۔اس لیے روایات صحیحہ معمول بہا اور روایات صحیحہ غیرمعمول بہا فن حدیث کے بجائے فن فقہ کا موضوع ہے، کیونکہ تحقیق کے اعتبار سے تو وہ صحیح قرار پاچکی ہوتی ہیں، البتہ نسخ یا ترجیح یا اضطراب کی وجہ سے ان سے استدلال کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان پر عمل۔ چنانچہ مختلف الحدیث یا مشکل الاثارکی مباحث بنیادی طورپر علم تاویل الحدیث کا موضوع ہیں، فن حدیث کا موضوع نہیں۔ اسی وجہ سے مختلف الادلہ، نسخ، ترجیح کے ضوابط وغیرہ عنوانات سے مستقل طور پر علم اصول فقہ بحث کرتا ہے۔ [1] فن محدثین میں یہ موضوعات صرف بطور خبر سامنے آتے ہیں۔ اسی لیے اس موضوع پر فقہاے کرام رحمہم اللہ نے جس قدر محنت كى ، عام محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔علامہ طاہر بن صالح الجزائری رحمہ اللہ (متوفیٰ 1338ھ) فرماتے ہیں: ’’إن المحدثین قلّما یحکمون على الحدیث بالاضطراب إذا کان الاختلاف فیه واقعا في نفس المتن لأن ذلك لیس من شأنهم من جهة کونهم محدثین وإنما هو من شأن المجتهدین. ‘‘ [2] ’’حدیث نبوی پر محدثین کرام رحمہم اللہ اس صورت میں اضطراب کا حکم بہت کم لگاتے ہیں جبکہ نفس متن میں اختلاف ہو، کیونکہ بحیثیت محدث یہ ان کا کام نہیں، بلکہ یہ مجتہدین کا کام ہے۔‘‘ پس محدثین کرام رحمہم اللہ کا کام’ علم حدیث‘ میں انتہائی عالی شان ہے،اورعام فقہاء رحمہم اللہ کا یہ میدان نہیں ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مرتضیٰ زین احمد، اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ ( متوفیٰ 597ھ) سے نقل کرتے ہیں: ’’قال ابن الجوزی: رأیت بضاعة أکبر الفقهاء في الحدیث مزجاة یعول أکثرهم على أحادیث لاتصح و یعرض عن الصحاح ویقلد بعضهم بعضا فیما ینقل. ‘‘ [3] ’’اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ حدیث کے میدان میں اکثر فقہاء کا علم بالکل ناقص ہے، اکثر فقہاء کی عادت ہے کہ وہ صحیح احادیث کو چھوڑ کر غیر ثابت روایات پر اعتماد کرلیتے ہیں جو صحیح نہیں ہوتیں اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی وہ ان ضعیف روایات کونقل کرتے جاتے ہیں۔‘‘
Flag Counter