Maktaba Wahhabi

35 - 117
بذریعہ پارلیمنٹ ہو گا، اس سے میرے نزدیک ان کی یہی مراد تھی ورنہ اجتہاد تو ظاہر ہے وہی لوگ کریں گے جنہیں دینی علوم میں مہارت حاصل ہو گی۔‘‘ [1] ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کے خطبہ اجتہاد کی عبارتیں اس لحاظ سے بالکل واضح ہیں کہ ان کے نزدیک پارلیمنٹ کے اجتہاد سے مراد، عصر حاضر میں پارلیمنٹ کو ’مجتہد مطلق ‘کا فریضہ سر انجام دینا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ‘‘ The transfer of the power of Ijtihad from individual representatives of schools to a Muslim legislative assembly which, in view of the growth of opposing sects, is the only possible form Ijma can take in modren times, will secure constributions to legal dicussions from laymen who happen to possess a keen insight into affairs...In India, however, difficulities are likely to arise for it doubtful whethera non-Muslim legislative assembly can excercise the power of Ijtihad ’’. [2] سید نزیر نیازی اس عبارت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مذاہب اربعہ کے نمائندے جو سردست فرداً فرداً اجتہاد کا حق رکھتے ہیں، اپنا یہ حق مجالس ِتشریعی کو منتقل کر دیں گے۔یوں بھی مسلمان چونکہ متعدد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اس لیے ممکن بھی ہے تو اس وقت اجماع کی یہی شکل۔مزید بر آں غیر علما بھی جو ان امور میں بڑی گہری نظر رکھتے ہیں،اس میں حصہ لے سکیں گے...ہندوستان میں البتہ یہ امر کچھ ایسا آسان نہیں کیونکہ ایک غیر مسلم مجلس کو اجتہاد کا حق دینا شاید کسی طرح ممکن نہ ہو۔‘‘ [3] ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کی اس عبارت میں چار مقامات ایسے ہیں جوان کے نظریہ اجتہاد کی وضاحت کر رہے ہیں : الف) ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ اس مقام پرمختلف مکاتب فکر کے نمائندوں یعنی افراد سے اجتہاد کا حق لینے کی بات کر رہے ہیں تو امت مسلمہ کی تاریخ میں کیا کبھی مجتہدین کے پاس اجتہاد کے نفاذ کا حق رہا ہے؟ کیا اقبال رحمہ اللہ اس سے ناواقف تھے کہ مختلف مکاتب فکر کے نمائندوں کا اجتہاد کیا تھا؟ اگر نہیں تو اقبال رحمہ اللہ کے ہاں جب مکاتب فکر کے نمائندوں سے پارلیمنٹ کی طرف اجتہاد کے منتقل ہونے کی بات ہوتی ہے تو کیا اس سے مراد مکاتب ِفکر کے نمائندوں سے اجتہادکے نفاذ کی اس قوت کو پارلیمنٹ کی طرف منتقل کرنا ہے جو پوری تاریخ اسلامی میں کبھی ان
Flag Counter