Maktaba Wahhabi

99 - 120
کمائی ہیں پس تم اپنی اولادوں کی کمائی سے کھاؤ۔ [1] تیسرا قول یہ قول بھی دوسرے قول کی طرح ہے کہ باپ اپنے بیٹے کا مال لے سکتا ہے لیکن انہوں نے چند شرائط لگا دی ہیں جن کی موجودگی میں باپ اپنے بیٹے سے مال لے سکتا ہے ۔ یہ حنابلہ کا قول ہے اور اسی کے مطابق ان کے ہاں فتوی ٰ دیا جاتا ہے۔ [2] شرائط ۱۔ مال بیٹے کی ضرورت سے زائد ہو تاکہ اس مال کو اپنی ملکیت میں لینے سے بیٹے کو ضرر نہ پہنچے کیونکہ ضرر سے منع کیا گیاہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((لاضرر و لا ضرار)) [3] لہٰذا باپ اپنے بیٹے کے ایسے مال کو اپنی ملکیت میں نہیں لے سکتا جو اس کی ضروریات زندگی سے متعلق ہو ۔ جیسے کوئی مشینر ی کہ جس سے وہ روزی کماتا ہو یا تجارت میں راس المال وغیرہ کیونکہ شریعت کی نظر میں انسان کی ضرورت اس کے فرض پر مقدم ہے جو باپ پر بھی بالاولیٰ مقدم ہے۔ چنانچہ فقہا و تابعین میں عطابن ابی رباح مکی رحمہ اللہ (متوفیٰ 114ھ) سے منقول ہے کہ باپ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے مال کو اپنی ملکیت میں لے سکتا ہے بشرطیکہ بیٹے کو اس سے ضررنہ ہو ۔ ۲۔ باپ وہ مال اپنے لیے حاصل کرے نہ کہ وہ دوسرے بیٹے کو دے دے یعنی ایک کا مال لیکر دوسرے بیٹے کو نہ دیا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ باپ اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو عطیہ وغیرہ دیدے اور دیگر کو چھوڑ دے ۔ [4] جب باپ اپنے ذاتی مال سے اپنی اولاد میں عطیہ دینے کے لیے کسی کو خاص نہیں کر سکتا تو ایک بیٹے سے مال سے لیکر دوسرے کو دینے کے لیے خاص کرنا بالاولیٰ جائز نہیں ہے ۔ ۳۔ بیٹے کے مال کو اس وقت اپنی ملکیت بنانا جب کہ بیٹا یا باپ مرض الموت کی حالت میں نہ ہوں کیونکہ مرض کے ساتھ ملکیت بنانے کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
Flag Counter