Maktaba Wahhabi

100 - 120
۴۔ باپ کافر اور بیٹا مسلمان ہو تو اس وقت بھی باپ اپنے بیٹے کے مال سے کچھ نہیں لے سکتا بالخصوص اس وقت جب بیٹا کا فر ہونے کے بعد مسلمان ہو جائے اور اس کا باپ کفر ہی پر قائم ہو ۔ [1] شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 728ھ) فرماتے ہیں : ’’ اسی سے مشابہ صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ باپ مسلمان ہو اور بیٹا کافر ہو۔ اس صورت میں بھی باپ اپنے بیٹے کے مال سے کچھ نہیں لے سکتا کیونکہ اختلاف ادیان سے ولایت اور وراثت منقطع ہو جاتی ہے۔‘‘ ۵۔ قول یا نیت سے قبضہ کر لینے سے پہلے بیٹے کے مال میں باپ کا تصرف غیر صحیح ہے اگرچہ غلام ہی آزاد کرنا ہو کیونکہ بیٹے کی اپنے مال پر مکمل ملکیت ہے اور وہ اپنے مال میں تصرف کا اختیار رکھتا ہے۔ الغرض باپ کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس شے کو اپنی ملکیت بنانا چاہتاہے اسے پہلے اپنے قبضہ میں لے اور پھر اس میں تصرف کرے۔ بنا بریں باپ اپنے بیٹے کے قرض یا جرمانے کا مالک نہیں بن سکتا کیو نکہ وہ ابھی تک قبضہ میں نہیں آیا ۔ مذکورہ شرائط کا گہرا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پہلی شرط ہی اہم ترین شرط ہے جبکہ بقیہ شرائط کا ہر حال اور جملہ معاملات میں لحاظ کرنا ضرور ی نہیں ہے اور یہ شرائط ہمارے اس مسئلہ کے ساتھ خاص نہیں ہیں ۔ خلاصہ کلام اگر سابقہ اقوال اور دلائل کو بنظر عمیق دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ تیسر ا قول پہلے کے موافق ہے کیونکہ انہوں نے باپ کے لئے بیٹے کے مال سے لینے کے مطلق جواز کو چند شرائط کے ساتھ مقید کیا ہے اور بیٹے کو ضرر نہ پہنچنے کی قید لگائی ہے۔ جمہور کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ باپ بلاضرورت اپنے بیٹے کے مال سے نہیں لے سکتا ۔ اس قول میں جمہور نے طرفین (باپ ، بیٹے ) دونوں کی رعایت رکھی ہے ۔ باپ کا حق بوقت ضرورت، نفقہ حاصل کرنے کے ذریعے محفوظ ہے اور اس قول میں خاندانی مشکلات کا حل اور ہر فریق کو اپنے ایمان کی زیادتی اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر قناعت کرنے کی دعوت دی ہے ۔ اس قول سے دل مطمئن ہو جاتا ہے ۔ اس بنا پر اگر باپ بیٹے کے مال کو اپنی ملکیت بنانے اور اپنی ضرورت سے زیادہ حاصل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور بیٹا اس مطالبے کو مسترد کر دیتا ہے تو وہ بیٹا نافرمان اور گنہگار نہیں ہو گا کیو نکہ بقدر ضرورت ان پر خرچ کر کے وہ اپنا فریضہ ادا کر رہا ہے اور ان کے حق میں کوتاہی نہیں کر رہا ۔ یہ ایک پہلو ہے، اگر دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو علما کرام کا اختلاف رحمت محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر معاملہ قاضی کے پاس عدالت میں چلا جاتا ہے تو قاضی دلائل ، شہادات اور حالات کو سامنے رکھ کر علما
Flag Counter