Maktaba Wahhabi

94 - 120
مال سے اپنی مرضی کے مطابق ہر چیز نہیں لے سکتا، بلکہ فی الحقیقت جس چیز کا محتاج ہے وہی لے سکتا ہے ۔ [1] امام ابن منذر رحمہ اللہ (متوفیٰ 319ھ) کہتے ہیں کہ اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے کہ ایسے تنگ دست والدین، جن کا نہ کوئی ذریعہ معاش ہو اور نہ ہی کوئی مال ہو تو ایسی صورت میں اولاد پر انکا خرچ اور ان ( چھوٹے ) بچوں کا خرچ بھی واجب ہے جن کے پاس ابھی کوئی مال نہیں۔ [2] علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 620ھ) بھی اسی بات کے قائل ہیں۔ اس بات میں علما و فقہا کا اختلاف ہے کہ اگر بیٹا باپ پر خرچ نہ کرے تو اس کے مال کو استعما ل کر سکتا ہے یا نہیں ؟ اور اگر بیٹے کا مال باپ لے سکتا ہے تو کس قدر ؟ اس سلسلہ میں فقہاء کے تین اقوال ہیں : پہلا قول ۱۔ باپ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ضروری نفقہ کے سوا اپنے بیٹے کے مال میں سے کچھ حصہ لے اور وہ بھی اس وقت جب کہ وہ ضرورت مندہو۔ بیٹے کا مال اسی کی اپنی ملکیت ہے اور باپ کے لیے یہ جائزنہیں کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ اس کے مال سے کچھ لے البتہ بیٹا اپنی رضا مندی سے دے دیتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ قول جمہور اہل علم یعنی حنفیہ ، مالکیہ اور شوافع میں سے اکثر فقہاے کرام کا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ (متوفیٰ241ھ) سے بھی اس قول کی ایک روایت موجود ہے جبکہ حنابلہ میں سے ابن عقیل کا بھی یہی قول ہے ۔ صحابہ و تابعین میں سے حضرت عبداللہ ابن عمر کا یہی قول ہے اور کبار فقہاے تابعین قاضی شریح (متوفیٰ 76ھ)، جابر بن زید، محمد بن سیرین(متوفیٰ 110ھ) ، حماد بن ابی سلیمان(متوفی 120ھ) اور زہری(متوفیٰ 124ھ) رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے جبکہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (متوفیٰ 715ھ)اور مجاہد رحمہ اللہ ( متوفی 104ھ) سے بھی ایک ایک روایت مروی ہے اس قول کے قرآن و سنت ، اجماع اور عقل و فہم سے دلائل بالترتیب حسب ذیل ہیں ۔ قرآن کریم سے دلائل اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿ يَسْـَٔلُوْنَكَ مَا ذَا يُنْفِقُوْنَقُلْ مَا اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَ الْاَقْرَبِيْنَ وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ﴾ [3] ’’ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں ؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر ، یتیموں پر ، مساکین پر ، مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ تعالی اس سے بخوبی واقف ہے۔ ‘‘
Flag Counter