حق طلاق مرد کو ہے شریعت اِسلامیہ میں طلاق ایک مکروہ چیز ہے اس لیے اللہ نے زوجین کے اختلاف کی صورت میں زوجین کو ایک ایک ’حَکَم‘ تجویز کرنے کا حکم دیا ہے کہ وہ امکانی حد تک ان کا باہمی اختلاف دور کر دیں اور ان میں صلح صفائی کرادیں۔ تاہم اگر اختلافات دور نہ ہو سکیں تو آخری حق طلاق مرد کو دیا گیا ہے۔ لیکن فکر جدید اس حق کی بھی تحدید چاہتی ہے : ’’ اگر ثالثی بورڈ کی کوششیں ناکام رہیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ ان کی باہمی رفاقت ممکن نہیں تو وہ اپنی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کریں گے (او ر اگر انہی کو آخری فیصلہ کا اختیار ہوگا تو خود ہی فیصلہ کردیں گے) اس طرح معاہدہ (نکاح) فسخ ہوگا۔ ‘‘ [1] اس ذہن نے بلادلیل مردسے حق طلاق چھین کر عدالت کو تفویض کر دیا ہے یا پھر دوسری صورت یہ بتلائی ہے کہ اس حق طلاق میں میاں بیوی دونوں برابر کے حصہ دار ہیں۔ جب کہ ان دونوں باتوں کی تردید کے لیے قرآن کی درج ذیل آیت کافی ہے۔ارشادباری ہے: ﴿ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَه﴾ [2] ’’ پھر اگر وہ (شوہر) اس (عورت کو تیسری) طلاق دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے ، اس (پہلے شوہر پر) حلال نہ ہوگی۔‘‘ دیکھئے اس آیت میں (طَلَّق) واحد مذکر غائب کا صیغہ استعمال ہوا ہے لہٰذا طلاق دینے والی اتھارٹی نہ عدالت ہو سکتی ہے نہ معاشرہ اور نہ ہی بیوی کوا س معاملہ میں شریک بنایا جا سکتا ہے۔انہوں نے عدالت کا معاملہ درمیان میں اس لیے بھی ذکر کیا ہے کہ اسلام نے عورت کو بھی خلع کا حق دیا ہے لیکن یہ چونکہ عدالت کے ذریعے ہی ہو سکتا ہےلہٰذا مرد و عورت کے حقوق میں یکسانی پید اکرنے کی خاطر عدالت کو اس میں داخل کر دیا ہے یا پھر مرد اور عورت کو برابر کا حصہ دار قرار دینے سے اس مسئلے میں یکسانی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر مساوات مرد وزن کے حاملین اپنی رائے منوانے کے لیے اتنے ہی مصرہیں جتناکہ ان آیات کی تفسیرمیں محسوس ہو رہے ہیں تو انہیں چاہیے تھا کہ اپنی رائے کی حمایت میں پہلے بقیہ دنیا کے مسلم ذہن کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں ،لیکن قرآن کے ساتھ تحریف نہ کریں۔ تفسیر کا پہلا اصول تفسیر القرآن بالقرآن ہے اور یہ قرآنی آیات کو وہ معانی دینے کے کیسے مجاز ہیں جو قرآن کی دیگر آیات سے ٹکراتا ہے۔ |