مرد اور عورت دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ [1]لیکن اس کے بعد بھی یہ تاویلی ذہن کسی ایک معنیٰ پر مطمئن نہیں اور معنیٰ کے مختلف امکانات کو سامنے لاتا ہے ان کا کہنا ہے : ’’ یہ استدلال اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ لوگوں نے اپنے آپ یہ طے کر لیا ہے کہ حوریں عورتیں ہوں گی جو جنت میں نیک مردوں کو ملیں گی حالانکہ حور کے یہ معنی صحیح نہیں۔ حور کے بنیادی معنی سفید کے ہیں چنانچہ حور ایک لکڑی کو کہتے ہیں جو سفید ہوتی ہے۔ "الحواریات" شہری عورتوں کو کہتے ہیں جن کا رنگ سفید ہو۔ حواری حضرت عیسیٰ کے ساتھیوں کو کہتے ہیں جو ان پر ایمان لائے، کیونکہ ان کا رنگ سفید تھا۔ وہ پیشے کے اعتبار سے دھوبی تھے جو کپڑوں کو دھو کر سفید کر دیا کرتے تھے۔ اسی مادّہ سے حور اسم تفضیل کا جمع کا صیغہ ہے۔ اِس لیے حور کے معنی سفید رنگ والے مرد اور سفید رنگ والی عورتیں دونوں ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھ لینا کہ حوریں عورتیں ہی ہوتی ہیں غلط ہے۔‘‘ [2] نسوانی نقطہ نگاہ سے کی جانے والی تفسیر کے مطابق حور کو اگر مرد سمجھ لیا جائے تو یہ قرآن پاک کی دیگر بہت سی آیات کے خلاف تفسیر ہو گی جن میں صراحتاً کلمہ حور کے لیے مؤنث کی ضمائر لائی گئی ہیں مثلاً ﴿ فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا﴾ [3] اور ﴿ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَ لَا جَآنٌّ﴾ [4] لہٰذا تفسیر قرآن کے اس اصول کہ "القرآن یفسر بعضه بعضًا" کو مد نظر رکھا جائے تو اس نوعیت کے بہت سے اشکالات واضح ہو جاتے ہیں اور قرآنی تعلیمات تضادات سے بچ جاتی ہیں۔قرآن کی اس طرح كی عجیب تفسیر کرنے کے بعد یہ ذہن اپنی ندرت فکر سے خود ہی مطمئن نہیں اور تعبیر نوکے بعدخود ہی رجوع کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے: ’’جنت کی زندگی کی حقیقت ماہیت اور کیفیت اس دنیا میں ہمارے شعور کی سطح سے بہت بالا ہے۔اسے ہم نہیں سمجھ سکتے۔ ‘‘ [5] قرآنی آیات کے فہم کے لیے عقل کا استعمال مستحسن ہے لیکن عقل کو وحی الٰہی کے مقابل کھڑا کرنا اسلام کی حدود سے تجاوز ہے شرعی احکام ہمارے شعور کی سطح سے بہت بالا ہیں وحی الٰہی کے باب میں شعور کی کوتاہ حدود کا اعتراف عقلمندی ہے۔ |