Maktaba Wahhabi

88 - 120
بحث میں صیغۂ امر کے مخاطب شوہر حضرات ہیں اور اس کے بعد والی آیت کے حکم کے مخاطب افرادِ خاندان یا حُکامِ معاشرہ ہیں۔ یہی مفہوم روایتی مفسرین نے بیان کیا ہے۔ [1] تعبیر نو کے حامیوں کے تضادات حیرت انگیز ہیں۔سورۃ النساء کی زیر بحث آیت میں احکام کے مخاطب شوہر ہیں یا دیگر افراد معاشرہ ؟ یہ بات واضح ہو چکی ہے مگرتعبیرجدید کے حاملین اپنی ژولیدہ فکری اور تضاد خیالی کے سبب کہیں ان احکام کا مخاطب شوہر کو قرار دیتے ہیں اور کہیں دیگر افرادِ معاشرہ کو۔ ذیل میں ہم ان کا وہ اقتباس پیش کرتے ہیں جس میں ان احکام کا مخاطب عام مردوں کی بجائے شوہروں کو قرار دیا گیا ہے: ’’ اگر بیوی کی طرف سے نافرمانی اور بدسلوکی کا اندیشہ ہو تو شوہر کو چاہیئے کہ وہ بیوی کو نصیحت کرے اسے سمجھائے ۔اگر اس سے بات نہ بنے تو کچھ عرصہ اسے خوابگاہ میں تنہا چھوڑ دے اور اس سے بے تعلق ہو جائے۔ اگر وہ پھر بھی راہِ راست پر نہ آئے تو اسے معمولی سزا دی جا سکتی ہے۔ ‘‘ [2] یعنی اس آیت کا مخاطب احکام معاشرہ کو ٹھہرانے کے بعد ان کو اطمینان قلبی نصیب نہیں تو خود پھر اسی موقف کی طرف لوٹے ہیں کہ جس کا پہلے انکار کر چکے تھے۔ حقوق نسواں کی تعبیر نو کے حاملین کو درج بالا آیت کا یہ حصہ نہ اگلتے بنتا ہے نہ نگلتے۔ قرآن پر اعتماد تو ہے لیکن ان الفاظ کا کیا کریں جو ان کی مساوات مردوزن سے ٹکراتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ اس کے خلاف کوئی دلیل نہیں پیش کر سکتے۔ امینہ وددود کہتی ہیں کہ یہ آیت عورت کے خلاف شدید تشدد کی ممانعت کرتی ہے نہ کہ اُس کی اجازت دیتی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’قرآن کہیں بھی عورتوں کو خاوندوں کی اطاعت کا حکم نہیں دیتا ۔وہ کہیں یہ نہیں کہتا کہ خاوندوں کی اطاعت ایک اچھی عورت کی صفات میں سے ہے۔ اس اُصول پر کوئی تعلق وجود میں نہیں آسکتا کہ نافرمانی پر مرد کو مارنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ایسی تفسیر اپنے اندر یہ صلاحیت نہیں رکھتی کہ ہر دور میں قابلِ قبول ہو جب کہ وہ قرآن کے بنیادی پیغام سے بھی متصادم ہے ۔‘‘ [3] طبقہ نسواں امینہ ودود کی ذاتی آراء سے جو کچھ اخذ کرتا ہے اسے دلیل بنا کر "واضربوهن" کے معنی کو بدل کر کہیں کا کہیں لے جاتا ہے، اور قرآن کی تفسیر طبقہ نسواں کا کھلونا بن جاتی ہے۔ملاحظہ فرمائیے: ’’"واضربوهن" کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ شوہر اب اپنی بیوی کو مار سکتا ہے بلکہ اس کا مقصد باہمی اتفاق شدہ پر امن حل کو تلاش کرنا ہے۔قرآن کا مطلب آپس کی ناچاقی کو ختم کرنا ہے نہ کہ عورت پر سکہ جمانا،اگر آخری حد کی نوبت آ بھی جائے تو اس کا مفہوم ہرگز تشدد نہیں،کیونکہ وہ غیر اسلامی ہے۔‘‘ طبقہ نسواں کی ترقی پسند جدیدعورتیں تاویلی طریقے کے لالچ میں تفسیر کے علمی میدان میں قدم رکھنے میں
Flag Counter