Maktaba Wahhabi

87 - 120
ہی دے سکتے ہیں۔ کوئی بھائی باپ یا بیٹا ، اپنی بہن ، بیٹی یا ماں کا شریکِ بستر نہیں ہوا کرتا کہ انہیں نشوزِ نسواں کی صورت میں اس حکم کا مخاطب قرار دیا جائے۔ اس لیے آیت زیربحث میں ان احکامِ ثلاثہ کے مخاطب بالیقین شوہر حضرات ہی ہیں نہ کہ کچھ اور لوگ۔ رہافکر جدید کا یہ فرمان کہ ’’ عورتوں کو ان کی خوابگاہوں میں چھوڑ دینا ایک قسم کی سزائے نظر بندی ہے۔ ‘‘[1]تو یہ حقیقتِ نفس الامر کی بڑی ناقص اور ادھوری تعبیر ہے۔ اگر اس سے مراد محض ’’ سزائے نظربندی‘‘ ہوتی تو قرآن ﴿ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ ﴾ کی بجائے "واهجروهن في البیوت" کی تعبیر اختیار کرتا جیسا کہ اتیانِ فاحشہ کی صورت میں سورۃ النساء آیت15 میں "فامسکوهن في البیوتِ "کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے قرآن نے یہی تعبیر اختیار کی اس لیے درست یہ ہے کہ ﴿ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ ﴾ کے حکم میں سزائے نظر بندی سے کہیں زیادہ شدت و غلظت پائی جاتی ہے کہ عام نظربندی میں میاں بیوی شریک بستر ہونے کی راحت سے محروم نہیں ہوتے مگر یہاں یہ راحت بھی مفقود ہے۔ ۲۔ رہا یہ امر کہ’’ اس آیت سے متصل بعد والی آیت میں جمع حاضر کے صیغوں سے افراد معاشرہ یا حکامِ معاشرہ کو خطاب کیا گیا ہے اور زوجین کا ذکر تثنیہ غائب کے صیغوں میں کیا گیا ہے اس لیے آیت زیرِبحث میں بھی حاضر کے صیغوں سے جن لوگوں کو خطاب کیا گیا ہے وہ شوہر حضرات نہیں بلکہ دیگر افراد خانہ یا حکام معاشرہ ہیں۔ تو یہ ایک نہایت ہی کمزور دلیل ہے جسے پیش کرتے ہوئے گویا یہ پہلے سے طے کر لیا گیا ہے کہ بیوی کی نشوز کی صورت میں شوہر کو کوئی ایسا موقع سرے سے دینا ہی نہیں ہے جس میں وہ اپنی ازدواجی زندگی کے بگاڑ کو خود درست کر سکے حالانکہ یہ بات قطعی طور غلط ہے۔ بیوی کی سرکشی اور نافرمانی کی صورت میں قرآن پہلے خود شوہر کو ’سربراہِ خانہ ‘ اور ’ کارفرما ‘ ہونے کی حیثیت سے یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ بیوی کو نشوز سے اطاعت و فرمانبرداری کی طرف لوٹائے۔ اس مقصد کے لیے نرمی اور سختی دونوں طریقوں سے کام لینے کی شوہر کو اجازت ہے۔ سب سے پہلے وہ نرمی اور بردباری سے اسے سمجھائے بجھائے ۔اگر زنِ ناداں پر شوہر کا یہ کلامِ نرم و نازک بھی بے اثر ثابت ہو تو اس سے سخت تررویہ اس طور اختیار کرے کہ بیوی کو اس کے بستر میں تنہا چھوڑ دے ﴿ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ ﴾ اگر یہ سزا بھی اسے راہِ راست پر نہ لا سکے تو بیش از بیش جو سخت ترین رویہ وہ اختیار کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ بیوی کو بدنی سزا دے ۔جب شوہر کی طرف سے بیوی کو راہِ راست پر لانے کی یہ تمام ترکوششیں ناکام ہو جائیں اور بیوی اپنی سرکشی پر قائم رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اصلاحِ احوال کا معاملہ اب زوجین کے بس سے باہر ہو چکا ہے۔ اب یہ کوشش فریقین کے علاوہ دیگر افرادِ معاشرہ یا حکامِ معاشرہ کو انجام دینی چاہیئے۔ اس لیے قرآن آیت زیرِ بحث میں اصلاحِ احوال کے لیے شوہر کو مخاطب کرتا ہے اور جب وہ ناکام ہو جاتا ہے تو قرآن اپنے روئے تخاطب کو اگلی آیت میں دیگر افراد یا حکام معاشرہ کی طرف موڑ دیتا ہے۔ یہ ہے وہ وجہ جس کی وجہ سے آیتِ زیرِ
Flag Counter