امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ (متوفیٰ 281ھ) مرسل سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے، سے بھی افضل نفقہ کو ن سا ہے ؟ تو صحابہ کرام نے کہا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹے کا اپنے والدین پر خرچ کرنا۔‘‘ [1] والدین کا حق مشاورت پیدائش سے بلوغت تک اولادکی کفالت وحضانت ، تعلیم و تربیت اور دیگرضروریات زندگی کی فراہمی والدین کے فرائض میں شامل ہے ۔بلوغت تک کی عمر چونکہ نا پختگی اور محتاجی کی ہوتی ہے اور بلوغت کے بعد انسان کو اپنے شریک حیات کی تلاش ہوتی ہے تو اس کے انتخاب اور اس بارے میں مختلف لوگوں سے مشاورت کرتا ہے لہٰذا اس سلسلے میں اگر کسی کا مشورہ پر خلوص اور جلب منفعت اوردفع مضرت کا حامل ہوسکتا ہے تو وہ والدین کا ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ والدین کی اولاد سے محبت ، الفت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انہیں کسی قسم کے نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ اور وہ اپنی اولاد کو اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں مشورہ دیتے ہیں جو انسان کی کامیاب زندگی کا سبب بنتا ہے اور دوسری طرف والدین کو یہ حق حاصل ہے کہ اولاد ان کے مشورے کے بغیرقدم نہ اٹھائیں ۔البتہ زندگی کے دو تین کاموں میں تو والدین سے مشورہ انتہائی ضروری ہے مثلا نکاح و طلاق اور جہاد وغیرہ جیسے مسائل میں جن کی تفصیل بالترتیب حسب ذیل ہے : شادی میں مشاورت اولاد کی بلوغت کے بعد سب سے بنیادی مسئلہ شادی ہے جوانسان کی فطری ضرورت ہے۔ عموماً بچوں کی یہ عمر والدین اور اولاد میں شادی کے معاملے میں اختلاف کوپیدا کرتی ہے ۔ اس اختلاف کی بنیادی طور پر دو وجوہ ہیں: ایک وجہ توخود والدین کی طرف سے ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ بعض والدین اپنے ذاتی اغراض و مقاصد اور خاندانی عصبیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کے لیے رشتے تلاش کرتے ہیں اور اس بات کو مدنظر نہیں رکھتے کہ بچے اب سن شعور اور حالات کو سمجھنے والے ہیں اور آئندہ زندگی بچوں نے خود ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے گزارنی ہے چنانچہ جب ایسے والدین، اپنے مفاد کو اولاد کے مفادات پرترجیح دینے لگتے ہیں تو اولاد اور والدین کے درمیان جھگڑا اور اختلاف جنم لیتا ہے حتی کہ اگر اولاد والدین کی ضد سے شادی کربھی لے تو اکثر و بیشتر ایسی شادیاں کامیاب ہی نہیں ہوتیں ۔ اس لیے اگر لڑکے کی شادی کے موقع پر انسان ہونے کے ناطے والدین کے دل میں کوئی خفگی ہو تو انہیں فورا ًاس ناراضگی کو دور کر دینا چاہیے۔ اس میں جہاں اللہ تعالیٰ رضامندی حاصل ہوگی وہاں خود ان کی اولاد بھی خوش ہوگی اور اپنے والدین کے لیے اولاد ہمیشہ دعا گو رہے گی ۔ |