Maktaba Wahhabi

4 - 79
فکر و نظر بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم خلافتِ راشدہ اور فلاحِ عامّہ پاکستان کو گذشتہ دنوں اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، بڑے پیمانے پرہلاکت وبربادی ہوئی اور بستیوں کی بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔انہی دنوں شمالی وزیر ستان میں اپنوں کی مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اہل اسلام کو اپنے گھرچھوڑکر دربدر ٹھوکریں کھانا پڑیں۔ان اہم قومی مراحل پر ہمارے حکمرانوں کا کیا کردار رہا، اور اُنہوں نے اپنے فرائض کہاں تک نبھائے؟ ایسے مواقع پر اسلامی تاریخ اور خلافتِ راشدہ سے ہمیں کیا سبق ملتاہے؟ ماضی میں جب مسلم اقوام اس طرح قدرتی آفات اور مصائب کا شکار ہوئیں تو ان کے حکام کس طرح اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برا ہوا کرتے؟ اس سلسلے میں ایک نمایاں مثال دورِعمرفاروق میں حجاز کو پیش آنے والے بدترین قحط کی ہے جو ۱۸ ہجری میں رونما ہوا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی ذات بطورِ حکمران ومنتظم مسلم حکام کے لیے عظیم رہنما اور قائد کی ہے جن کی بارگاہِ نبوت میں خاص تربیت ہوئی تھی۔ ذیل میں اس واقعہ کی ضروری تفصیلات اور اس میں چھپے ہوئے قومی اور عوامی اسباق قارئین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔صوبہ خیبر پختونخواہ کے سابق وزیر جناب قاری روح اللہ مدنی نے اس حوالے سے ایک اہم تحقیق کئی سال قبل اپنی کتاب مَعالم الريادة في مآلم الرّمادة میں پیش کی تھی جسے راقم نے حسبِ ضرورت اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ح م سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا حسب ونسب دنیا کو معلوم ہے۔ خاندانی شرافت اور سفارت کا اعتراف سب عرب کیا کرتے تھے۔ جرات، شجاعت اور بے باکی بے مثل تھی۔ علمیت اس درجے کی تھی کہ تائید میں بار بار وحی اُتری۔ خلفاے راشدین میں سب سے زیادہ فتوحات اور سب سے زیادہ اصلاحات انہی کے حصے میں آئیں۔ اقتدار نے ان کی قدم بوسی کی لیکن اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے کبھی تگ ودو میں ملوث نہیں ہوئے۔
Flag Counter