Maktaba Wahhabi

47 - 95
معاہدۂ امان نہیں توڑتا، لیکن یاد رہے کہ اوّل تو متعدد حنفی علما کے نزدیک ذمّی کا معاہدہ امان اس سے ٹوٹ جاتا ہے، ثانیاً معاہدہ امان نہ ٹوٹنے کا لازمہ یہ نہیں کہ اُس کو قتل نہ کیا جائے، بلکہ معاہدۂ امان ٹوٹ جانےسے ان بعض احناف کی مراد یہ ہے کہ حربی شخص کی طرح اس ذمی کا مال ، مالِ غنیمت اور ذمی خواتین ، لونڈیاں نہیں بن جاتیں، بلکہ ذمی کے جرمِ سرقہ کی طرح اس کی سزا اکیلے مجرم ذمی کو ہی دی جائے گی، اس کے اموال و خاندان کو نہیں،اس بنا پر اس جرم کو ذمی کے مال وکنبہ کے معاہدہ امان ٹوٹنے کے مترادف نہ سمجھا جائے۔ جیساکہ خیر الدین رملی حنفی لکھتے ہیں: لا یلزم من عدم النقض عدم القتل [1] ’’عہدامان نہ ٹوٹنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس ذمّی کو سزا قتل نہیں دی جائیگی۔‘‘ ٭ علامہ ابن سبکی فرماتے ہیں: لا ينبغي أن يفهم من عدم الانتقاض أنه لا يقتل فإن ذلك لايلزم [2] ’’معاہدہ نہ ٹوٹنے سے اس کا قابل قتل نہ ہونے کا مفہوم لینا درست نہیں، نقض عہد کا یہ لازمہ نہیں ۔‘‘ ٭ علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی، دورِنبوی میں بعض شاتم ذمیوں کے قتل سے استدلال کرتے ہوئے، معاہدہ امان نہ ٹوٹنے کے نکتہ کی مزید وضاحت کرتے ہیں: فإن النبي لم يجعل أموال هؤلاء فيئًا للمسلمين [3] ’’نبی کریم نے [ذمّی]شاتمان کے اموال کو مسلمانوں کے لئے مالِ غنیمت نہیں بنایا۔‘‘ غرض جس شخص نے حنفیہ کے اس موقف سے یہ سمجھا ہے کہ احناف کے ہاں ذمّی شاتم رسول کی سزا قتل نہیں، اس نے بڑی غلطی کی ہے، جیساکہ اس کی پرزور تردید علامہ ظفر احمد عثمانی نے اپنی کتاب ’اعلاء السنن‘میں امام ابن حزم کا جواب دیتے ہوئے کی ہے۔ یاد رہے کہ علامہ عثمانی تھانوی کی کتاب ’اعلاء السنن‘ پاکستان میں علماے دیوبند کے انتہائی معتمد عالم مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات سے ماخوذ ہے۔علامہ عثمانی کا یہ موقف بلاتبصره
Flag Counter