لیکن بغور دیکھا جائے تو اس سے بھی شیعوں کا مدعا ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کرم اللہ وجہہ ہی کو حق خلافت تھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ وغیرہ نے خلافت ِعلی رضی اللہ عنہ کو معاذ اللہ ظلم سے غصب کیا۔جس کی وجہ سے وہ موردِ عتاب الٰہی ہوگئے وغیرہ وغیرہ، کیونکہ اس حدیث میں جو مولا کا لفظ ہے جس پر سارا مدار ہے اس کے معنی دوست اور محب ِخالص کے ہیں ، نہ کہ حاکم اور امیر کے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص اپنی ذات ستودہ صفات کی نسبت بھی فرمایا ہے: (لا يؤمن أحدکم حتی أکون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين) ’’یعنی جب تک میں سب چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور مجھے تم اپنی اولاد اور ماں باپ اور تمام جہان کے لوگوں سے زیادہ پیارا نہ سمجھو گے، مسلمان نہ ہوگے۔‘‘(صحیح مسلم:۴۴) نیز اسی حدیث میں من کنت مولاہ کے آخر میں بروایت ِامام احمد، ابویعلی اور طبرانی کے یہ الفاظ بھی ہیں :(اللهم والِ من والاه وعادِ من عاداه) (مسند احمد:۱/۱۱۸) یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے من کنت مولاہ فرمانے کے بعد یہ بھی فرمایا کہ ’’اے اللہ! جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرے اس سے محبت کر اور جو اس سے عداوت رکھے تو بھی اس سے دشمنی کر اور اس کو مبغوض رکھ۔‘‘ اس سے صاف سمجھا جاتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے متعلق وصیت نہ فرمائی تھی۔ بلکہ اخلاص اور محبت کے متعلق تھی جو ہم کو بھی منظور ہے، کیونکہ موالات کے مقابلہ میں آپ نے معادات کا لفظ فرمایا ہے۔ پس جو اس مقابلے کا مفہوم ہے، وہ صرف اسی قدر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کرم اللہ وجہہ سے عداوت رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہیں جس پر ہمارا بھی اتفاق ہے۔ ٭ اس سے بڑھ کر اس معنی کا قوی قرینہ بلکہ دلیل کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان الفاظ سے مراد صرف وصیت ِمحبت تھی نہ کہ وصیت ِخلافت، واقعہ بیعت ِابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی کے انتقال فرماتے ہی انصارِ مدینہ نے ایک الگ مجلس منعقد کرکے امیر بنانے کی تجویز کی جس پر ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہ خبر سنتے ہی مع ابوعبیدہ امینِ امت کے وہاں برسر موقع پہنچے دیکھا کہ مباحثہ گرم ہے۔ انصار کا ارادہ ہے کہ اہل مدینہ میں سے امیر مقرر ہو۔ ان صاحبوں کے سوال و جواب |