کردیا جائے گا ۔ ‘‘ ابن ہمام حنفی فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ کل من أبغض رسول صلی اللہ علیہ وسلم بقلبه کان مرتدًا ، فالساب بطریق أولیٰ ، ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في استحقاق القتل ’’جس شخص نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی طور پر بغض رکھا، وہ مرتد ہوجاتاہے ، تو گالی دینےوالا تو بالاولیٰ مرتد ہوگا ۔ اور پھر ایسا شخص ہمارے نزدیک بطورِ حد قتل کیا جائے گا اور قتل کے بارے میں اس کی کوئی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔ ‘‘ معاصر علماے کرام کے فتاویٰ 1۔ سعودی عرب کے ممتاز عالم دین شیخ عبد اللہ غنیمان سے سوال کیا گیا کہ آپ کے نزدیک رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کی توبہ کی صحت کے متعلق راجح قول کیا ہے؟ آیا یہ توبہ نفاذ ِحد پر اثر انداز ہوگی یا نہیں ؟ اس پر شیخ عبد اللہ کا جواب تھا : ’’دنیا میں اس شخص کی کوئی توبہ نہیں ۔ وہ واجب القتل ہے ، البتہ آخرت کا معاملہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے مابین ہے۔ اگر اس کی توبہ صادقہ ہوئی تو کوئی اس کے اور توبہ کے مابین حائل نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو گالی دینے والے شخص کے متعلق بھی یہی حکم ہے ۔‘‘ سعودی عرب کے ایک او رمعروف عالم جناب صالح المنجد سے بھی شاتم رسول کی توبہ سے متعلق پوچھا گیا تو اُنہوں نے علماء کی اس مسئلہ میں تفصیل ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ’’خلاصہ کلام یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینا محرمات میں سب سے عظیم ترین گناہ ہے اور علما کا اِجماع ہے کہ ایسا کرنےوالاکافر اور مرتد ہوجاتاہے۔ چاہے اس نے یہ کام سنجیدگی سے کیا ہو یا مذاق اور مزاح میں ۔اور ایسا کام کرنے والے کی سزا ، چاہے وہ مسلم ہو یا کافر، قتل ہے چاہے وہ تائب ہی کیوں نہ ہوجائے ۔ البتہ اگر اس نے سچے دل سے توبہ نصوحہ کی ہوگی اور اپنے کئے پر پشیمان ہوا ہوگا تو یہ توبہ اسے روزِ قیامت فائدہ دے گی اور اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادے گا،لیکن دنیا میں وہ ہر حال قتل ہوگا۔ ‘‘ (الاسلام: سوال وجواب ) احکام و ش |