دین پر طعن وتشنیع نہ کریں ۔اگر ایسا کریں گے تو یہ حکم ہے کہ ان کو قتل کیا جائے ۔ان کا کوئی عہد وپیمان نہیں ہے ۔ تیسرا اعتراض : اسلام میں جبر نہیں ! یہ کہا جاتا ہے کہ اس سزا سے دین کی بنیادی روح پر حرف آتاہے ، کیونکہ دین میں جبر نہیں اور آپ جبر کرنا چاہتے ہیں ۔ جواب:دین میں جبر کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی کو بندوق کی نوک پر مومن نہیں بناسکتے۔ اگر وہ مطلب ہے جو معترضین سمجھتے ہیں تو پھر جب کسی حکمران ،یا کسی کے ماں باپ کو گالی دی جاتی ہے تو اس کو سزا کیوں دی جاتی ہے ؟! دین میں جبر کا مطلب یہ ہے کہ: زبردستی کسی کو اپنے دین میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کوئی جبر والی بات نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی جائے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں ۔ چوتھا اعتراض : شاتم رسول کی توبہ شاتم رسول اگر توبہ کرلے تو اس پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔ جواب :توبہ کب قبول کی جاتی ہے اس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے : فرمان باری تعالیٰ ہے : اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهِمْ١ۚ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ’’ہاں جو لوگ اس سے پہلے توبہ کرلیں کہ تم ان پر قابو پالو تو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بخشش اور رحم وکرم والا ہے ۔ ‘‘(المائدۃ:34) توبہ تب قبول ہوتی ہے جب تک کوئی قانون کے شکنجے میں نہیں آتا،جب زانی قانون کے شکنجے میں آگیا تو اس پر زنا کی حد لگے گی۔ قاتل ، شرابی جب قانون کی دسترس میں آگئے ان پر حدود اللہ کا نفاذ ہوگا اور توبہ اُنہیں حد کے ساقط ہونے میں کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ اسی طرح شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب قانون کی گرفت میں آگیا اور شہادتوں سے ثابت ہوگیا کہ فلاں شخص نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے تو اسے قتل کرنےکے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں زنا کے کیس میں گناہ کے مرتکب دو صحابہ: ماعز بن مالک اور غامدیہ پر حد رجم نافذ کی گئی حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غامدیہ سے متعلق فرمایا تھا : |