Maktaba Wahhabi

124 - 138
ترتیب کا لحاظ رکھا ہے لیکن قوسین میں اصل کے اعتبار سے مذکورہ ’فرق‘ کا نمبر دے دیا ہے۔ مثلاً فرق نمبر ۱ (نمبر ۳۶) یعنی اصل کتاب میں یہ فرق نمبر ۳۶ کی حیثیت سے ذکر کیاگیا ہے۔ اگر مزید تشریح کی ضرورت ہو تو میں نے ایسے اضافات کو ’فائدہ‘ یا ’فوائد‘ کا ذیلی عنوان دے کر ذکر کیا ہے۔ گویا اس کتاب کی عربی عبارات کو اختصار کے ساتھ اُردو کا قالب پہنانا میری ایک حقیر سی کوشش ہے جس میں ’فوائد‘ کا اضافہ میرے اپنے فہم و اِدراک کا نتیجہ ہے۔ اب اس تمہید کے بعد شیخ طیبی کے تعارفی مقدمات کا اختصار ملاحظہ ہو: امام قرافی امام قرافی کا پورا نام مع نسبت یوں ہے: امام شہاب الدین ابوالعباس احمد بن ابی العلاء ادریس بن عبدالرحمن بن عبداللہ بن یلّینالقرافی مصری مالکی۔ امام قرافی کی طرف نسبت ’قرافہ‘ نامی جگہ کی طرف ہے جو اس علاقے کا نام ہے جہاں فاتح مصر عمرو بن العاص نے ایک شہر کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس شہر کا ایک محلہ قبیلہ قرافہ کے وہاں آباد ہونے کی وجہ سے قرافہ کہلایا۔ عام طور پر قبائل کے نام بھی کسی سردار یا اہم شخصیت کے نام پر رکھے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ قرافہ اس قبیلے کے اَجداد میں سے ایک خاتون کا نام تھا۔ امام قرافی کی نسبت ان کے خاندان کے یہاں آباد ہونے کی وجہ سے ہے، نہ کہ اصل کے اعتبار سے۔ وہ خود اپنے رسالہ العقد المنظوم في الخصوص والعموم میں لکھتے ہیں :’’میرا قرافی کی نسبت سے مشہور ہونا اس لیے نہیں ہے کہ میں اس قبیلے میں سے ہوں بلکہ اس لیے کہ یہاں کچھ دیر ہماری سکونت رہی ہے۔ میں اصلاً مراکش کے علاقہ صنہاجہ سے ہوں ، البتہ میری پیدائش ۶۲۶ھ میں مصر میں ہوئی اور یہیں میں پلا بڑھا۔‘‘ امام قرافی نے قاہرہ کے مدارس ہی میں تعلیم پائی۔ گو اُنہیں مالکی مذہب کے ائمہ میں سے شمار کیا جاتا ہے، لیکن اُنہیں بقولِ امام سیوطی رحمہ اللہ مجتہد کا درجہ حاصل ہے کہ وہ ہمیشہ دلیل کے پابند نظر آتے ہیں ، چاہے مذہب کی مخالفت ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔ اساتذہ کرام اُنہیں یہ بلند درجہ اس لیے ملا کہ اُنہوں نے اپنے زمانہ کے مشہور اہل علم کے سامنے
Flag Counter