Maktaba Wahhabi

122 - 138
عرض ہے کہ اس عبارت میں تدلیس کا لفظ یا معنی موجود نہیں بلکہ عمرو بن دینار عن عبید بن عمیر میں یہ اشارہ ہے کہ اس سے غیر مدلس کی معنعن روایات مراد ہیں ۔ ٭ بطورِ لطیفہ عرض ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک مشہور قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک درخت کی ٹہنی پر بیٹھا ہوا آری کے ساتھ اُسے کاٹ رہا تھا ، جس حصے کو وہ کاٹ رہا تھا وہ درخت کی طرف تھا اور یہ خود دوسری طرف بیٹھا ہوا تھا ، پھر نتیجہ کیا ہوا ؟ دھڑام سے نیچے آ رہا اور ایسی ’پھکی‘ ملی کہ دن میں بھی تارے نظر آ گئے۔ بالکل یہی معاملہ اُس شخص کا ہے جو ایک طرف منہج المتقدمین کے نام سے تدلیس کے دو حصے ( کثیر و قلیل) بنا کر مدلسین کی معنعن روایات کو صحیح سمجھتا ہے اور دوسری طرف اعمش وغیرہ مدلسین ( جن کا کثیر التدلیس ہونا متقدمین سے صراحتاً ثابت نہیں ) کی معنعن روایات کو ضعیف سمجھتا ہے۔یہ شخص اگر نیچے نہ گرے تو کیا آسمان میں اُڑے گا؟! آخر میں عرض ہے کہ تدلیس کے مسئلے میں دو باتوں کی تحقیق انتہائی ضروری ہے : 1 کیا راوی واقعی مدلس تھا یا نہیں ؟ اگر مدلس نہیں تھا تو بری من التدلیس ہے، مثلاً ابوقلابہ الجرمی اور بخاری وغیرہما ، لہٰذا اُن کی معنعن روایت ( اپنی شروط کے ساتھ ) مقبول ہے۔ 2 اِرسالِ خفی اور ارسالِ جلی کی تحقیق کر کے مسئلہ واضح کر دیا جائے۔ کاش کہ اپنے قلم کو تناقضات کی وادیوں میں دوڑانے والے صحیح تحقیق کا راستہ اختیار کر کے اس طرف بھی اپنی توجہ مبذول فرمائیں ۔ اِعلان ماہنامہ ’محدث‘ میں مضامین و مراسلات بھیجنے والے حضرات آئندہ اس فون یا اِی میل پر رابطہ کر سکتے ہیں ۔ کامران طاہر(معاون مدیر)فون:0302-4424736 ای میل:mkamrantahir@gmail.com
Flag Counter