Maktaba Wahhabi

71 - 79
معاشرے کی فلاح و بہبود کا ضامن سمجھے ہوئے ہیں ۔ کس کے طالب علم زیادہ ہیں ، کس کا حلقہ درس زیادہ وسیع ہے اور کس کے اجتماع میں زیادہ حاضری تھی؟ بس یہی حساب و کتاب جاری ہوگیا ہے اور دین کو اِخلاص و خیرخواہی کے ساتھ لوگوں تک پہنچانا ثانوی درجہ اختیار کرگیا ہے۔ شہرت کی حرص کو میڈیا نے دو چند کردیا ہے۔ سابقوں ،لاحقوں کے ساتھ عظیم اور بھاری بھر کم القابات کا استعمال ایک رواج بن چکا ہے۔کوئی بھی خود کو شیخ الاسلام یا شیخ الحدیث سے کم سمجھنے کو تیار نہیں ہے اور کوئی مدرسہ بھی جامعہ سے کم نہیں ہے۔ جہاں بھی دین کا کام ہورہا ہے، جماعت یامسلک کا نام سب سے پہلے نظر آئے گا۔جماعت اپنا حلقہ قائم کرے گی پھر دین کا کام شروع ہوگا۔اگر کہیں حلقہ قائم نہ ہوسکے اور جماعت کا نام پس پردہ چلا جائے تو کام رُک جاتا ہے۔مقاصد اور تربیت کا کام بہت پیچھے چلا گیاہے۔ آج جتنی کوششیں علماء اپنے مسلک، جماعت، مسجد و مدرسے کو برتر ثابت کرنے کے لیے کررہے ہیں ، اپنی علمی برتری کو کل عالم سے منوانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے بے دریغ پیسہ خرچ کررہے ہیں ، ان کوششوں کا ادنیٰ حصہ بھی اگر وہ دین اسلام کو غالب کرنے کے لیے اور اخلاص وخیرخواہی کے ساتھ لوگوں تک صحیح دین پہنچانے کے لیے صرف کریں تومعاشرہ میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔پھر ہر طرف جماعتیں اور مکاتب فکر نہیں ، دین کا غلبہ ہوگا اور یہی اصل میں دین اسلام کی خدمت ہے۔ اپنے مدرسے،حلقے اور اجتماع میں زیادہ حاضری چاہنا، اس کو وسیع تر کرنے کے لیے تگ و دو کرنا اور پھر اس کو دین کی خدمت کا ذریعہ قرار دینا فی نفسہٖ اپنی روح میں دین کی خدمت نہیں بلکہ اپنی برتری کا سکہ کل معاشرے پر جمانے کی کوشش کرنا ہے۔یہی مقابلہ بازی بڑھتے بڑھتے اصل مقصد کو کھو کر منفی جذبات میں ڈھل جاتی ہے اور اندر ہی اندر حسد کے بیج اُگنے لگتے ہیں ۔ آج عصری ادارے ہوں یا مذہبی ادارے ہمیں دین کا نام لے کر دین کا کام کرتے ہوئے اس کیفیت اور حاسدانہ جذبات سے بچنا بہت ضروری ہے۔ وگرنہ نیکیوں کی فصل کو جل کر راکھ کے ڈھیر میں بدلنے میں لمحہ بھی نہیں لگے گا اور محاسبہ کڑا اور پکڑ سخت تر ہوگی۔
Flag Counter