باعث نہیں بنتی بلکہ وہ سراسر حاسد کے لیے ہی وبالِ جان بنا رہتاہے اور یوں وہ اپنی ذات کا خود ہی بڑا دشمن بن بیٹھتاہے، لیکن جب وہ اپنی جلن کو کھلم کھلا ظاہر کرنے لگے تو یہی وہ مقام ہے جس سے پناہ مانگنے کے لیے خالق ارض و سماء نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے: ﴿وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدٍ﴾ (الفلق:۵) ’’(میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں ) حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگیـ۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں یہ نہیں سکھایا گیا کہ ’’حاسد کے شر سے پناہ مانگو‘‘ بلکہ اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ’’حاسد کے شر سے پناہ مانگو جب وہ حسد کرنے لگے‘‘ کیونکہ جب تک اس کا حسد ظاہر نہیں ہوتا تب تک وہ ایک قلبی وفکری بیماری ہے جس کا تعلق حاسد کی ذات سے ہے اور یہ درجہ محسود کے حق میں نقصان دہ نہیں ہے۔ قرآن میں مختلف مقامات پر آیات وارد ہوئی ہیں جن میں اللہ تبارک تعالیٰ نے حسد کا ذکر کیا ہے۔ ان آیات سے حسد کا معنی اور زیادہ واضح ہوجائے گا۔ 1.﴿حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ﴾(البقرۃ:۱۰۹) ’’اپنے دلوں میں حسد کی وجہ سے۔‘‘ 2.﴿أمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اﷲُ مِنْ فَضْلِہٖ﴾(النساء :۵۴) ’’کیا وہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے ان کواپنے فضل سے عطا کیا ہے۔‘‘ 3.﴿فَسَیَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا﴾ (الفتح :۱۵) ’’پس عنقریب وہ کہیں گے بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔‘‘ مذکورہ بالا آیات میں حسد کی بات کی گئی ہے جو دلوں تک محدود رہتا ہے اور کینہ وبغض کی شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے،لیکن سورہ فلق میں إذا حسد کے الفاظ سے واضح ہوتاہے کہ جب وہ حسد کا عملی مظاہرہ کرنے لگے۔ حسد کی مذمت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف اَحادیث مروی ہیں ، مثلاً 1. ’’کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتے۔‘‘ (سنن نسائی:۲۹۱۲) 2. ’’تمہاری طرف پچھلی قوموں کی برائیاں حسد اور بغض سرایت کر آئیں گی جو مونڈ ڈالیں گی میں نہیں کہتاکہ یہ بالوں کومونڈ دیں گی بلکہ یہ دین کو مونڈ دیں گی۔‘‘(سنن ترمذی:۲۵۱۰) |