Maktaba Wahhabi

79 - 79
استعمال ہونی شروع ہوئی اور چند ہی برسوں میں اس نے دنیاے اسلام کو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا؟ مغربی میڈیا نے نہایت ہوشیاری سے بنیاد پرستی کامطلب جاہل، ترقی دشمن، دہشت گرد، دقیانوسی اور کٹر نظریات کے حامل کے طور پر پیش کیا بلکہ اس قدراس کاشور مچایا کہ ہر مسلمان ہاتھ باندھ کر کہنے لگا کہ حضور میں بنیادپرست نہیں ہوں حالانکہ بنیاد پرستی کامطلب فقط اسلام کے بنیادی عقائد پر عمل کرنا ہے اور اس کا مطلب ہر گز دہشت گردی یا دقیانوسی نہیں ۔چنانچہ اب جب بھی کوئی مغربی صحافی اسلامی ممالک میں جاتا ہے اور سربراہانِ حکومت یا دوسری اہم ملکی شخصیات سے یہ سوال پوچھتا ہے کہ کیا آپ بنیادپرست ہیں تو جواب ملتا ہے کہ ہم بالکل بنیادپرست نہیں ، ہم اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اسلام کے بنیادی اراکین پر یقین رکھتے ہیں نہ عمل کرتے ہیں ۔ خود مغربی میڈیا بنیاد پرستی کالیبل لگانے میں کس قدر انصاف سے کام لیتا ہے، اس کااندازہ صرف اس ایک مثال سے لگائیے کہ جب تک گلبدین حکمت یار افغانستان میں روسی قبضے کے خلاف لڑ رہے تھے، جس سے امریکی مفادات حاصل نہ ہوتے تھے تو وہ جنگ آزادی کا ہیرو تھا،لیکن جب روس کی شکست کے بعد اس نے امریکی مفادات سے ہم آہنگ ہو کر چلنے سے انکار کیا تو مغربی میڈیا نے اسے ’بنیاد پرست‘ کہہ کر مسترد کردیا۔ گویا مغربی ممالک اپنے میڈیا کو ایک طرح سے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں جو ایٹم بم سے کم خطرناک نہیں ہے۔ مغربی میڈیا نے اسلامی بنیاد پرستی کے تصور کوجس طرح مسخ کیا ہے اور اس کامفہوم بدل کر دنیائے اسلام کو معذرت خواہانہ انداز اپنانے پر مجبور کر دیا ہے موجودہ حالات سے ظاہر وباہر ہے۔ میڈیا کس طرح اسلامی بنیاد پرستی کاحلیہ بگاڑ رہاہے۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اخبارات کے مطابق کہا جارہا ہے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی وجہ اسلامی بنیاد پرستی کابڑھتا ہوا رجحان ہے۔ اسلامی سزاؤں کو ’ظالمانہ سزائیں ‘ کہاجارہا ہے، پردے کے احکامات کا میڈیا پرسرعام مذاق اڑایا جارہا ہے، جہاد کو دہشت گردی کانام دیاجارہاہے۔افسوس کامقام ہے کہ مغربی میڈیا جو کر رہاہے ، سو کررہاہے، ہمارااپنا میڈیابھی کسی سے کم نہیں جو آج تک جہاد اور دہشت گردی میں فرق نہیں سمجھ سکا۔
Flag Counter