Maktaba Wahhabi

94 - 79
عدل وقضا ڈاکٹر عبد الرء وف ظفر دو سری قسط سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور پا کستان میں عدل کے اِدارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُصولِ قضا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قضا کے منصب پر فائز کیا اور اس کے کچھ اُصول مقرر کیے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَقُلْ آمَنتُ بِمَا اَنزَلَ اللہ مِن کِتَابٍ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُم﴾[1]’’اور فرمادیجئے میں اس کتاب پر ایمان رکھتا ہوں جو اللہ نے نازل فرمائی ہے اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل قائم کروں ۔‘‘ ﴿قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْط﴾[2] ’’اور کہہ دیجئے کہ میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے۔‘‘ ﴿ وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُم بَیْْنَہُمْ بِالْقِسْط﴾[3] ’’اور اگر تو ان کے درمیان فیصلہ کرے توانصاف کے ساتھ فیصلہ کر۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قاضی کا منصب اس عہدہ کے تحت تو کبھی کسی کو عطانہیں فرمایا، البتہ عمال کی ذیلی ذمہ داریوں میں اُمورِ قضا کی انجام دہی بھی شامل تھی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یمن کے امیر تعینات فرمایا تھا۔ دراصل عمر رضی اللہ عنہ اسلام کے دورِ خلفاے راشدین کے پہلے قاضی تھے جنہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد ِخلافت میں باقاعدہ قاضی کے عہدے پر فائز کیا مگر سال بھر تک ان کے سامنے کوئی مقدمہ ہی پیش نہ ہوا۔چنانچہ جہاں تک دور نبوی کی بات ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو اکنافِ عرب میں مقدمہ کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے کر روانہ فرمایا ،اگرچہ ان کے لیے قاضی کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔[4] جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا گیاتو اُنہوں نے کہا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہاں نئے نئے
Flag Counter