٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی لایا گیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتا تھا تو فرمایا: من سبَّ اﷲَ أو سبَّ أحدا من الأنبیاء فاقتلوہ (الصارم المسلول: ص۴۱۹) ’’جس نے اللہ کویا انبیاے کرام علیہ السلام میں سے کسی کو گالی دی تو اسے قتل کردیا جائے۔‘‘ ٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیاکہ ’’جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی، اس کی گردن مار دی جائے۔‘‘ (مصنف عبد الرزاق:ج۵/ص ۳۰۸) ٭ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے : أَیُّمَا مُسْلِمٍ سَبَّ اﷲَ وَرَسُولَہُ أَوْ سَبَّ أَحَدًا مِنَ الأَنْبِیَائِ فَقَدْ کَذَبَ بِرَسُولِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَہِیَ رِدَّۃٌ یُسْتَتَابُ فَإِنْ رَجَعَ وَإِلاَّ قُتِلَ وَأَیُّمَا مُعَاہِدٍ عَانَدَ فَسَبَّ اﷲ َأَوْ سَبَّ أَحَدًا مِنَ الأَنْبِیَائِ أَوْ جَہَرَ بِہِ فَقَدْ نَقَضَ الْعَہْدَ فَاقْتُلُوہُ(زاد المعاد ۵/۶۰) ’’جس مسلمان نے اللہ یا اس کے رسول یا انبیا میں سے کسی کو گالی دی، اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی، وہ مرتد سمجھا جائے گا اور ا س سے توبہ کروائی جائے گی، اگر وہ رجوع کرلے تو ٹھیک، ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا اور جو معاہدہ کرنے والا شخص خفیہ یا اعلانیہ، اللہ یا کسی نبی کو بُرا کہے تو اس نے وعدے کو توڑ دیا، اس لئے اسے قتل کردو۔‘‘ اسی حوالے سے دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات اور ان پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردّ عمل ملاحظہ فرمائیں : 1. واقعہ کعب بن اشرف عَنْ جَابِرٍ یَقُولُ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ((مَنْ لِکَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ فَإِنَّہُ قَدْ آذٰی اﷲَ وَرَسُولَہُ؟)) قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ یَا رَسُولَ اﷲِ! أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَہُ؟ قَالَ ((نَعَمْ))۔قَالَ: إِئْذَنْ لِی فَلاَ قُلْ، قَالَ: ((قُلْ))، فَأَتَاہُ فَقَالَ لَہُ وَ ذَکَرَ مَابَیْنَہُمَا، وَقَالَ: إِنَّ ہَذَا الرَّجُلَ قَدْ أَرَادَ صَدَقَۃً وَ قَدْ عَنَّانَا، فَلَمَّا سَمِعَہُ، قَالَ: وَأَیْضًا، وَاﷲِ لَتَمَلَّنَّہُ قَالَ: إِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاہُ الآنَ، وَنَکْرَہُ أَنْ نَدَعَہُ حَتَّی نَنْظُرَ إِلَی أَیِّ شَیئٍ یَصِیرُ أَمْرُہُ، قَالَ: وقَدْ أَرَدْتُ أَنْ تُسْلِفَنِی سَلَفًا قَالَ فَمَاتَرْہَنُنِی قَالَ: مَا تُرِیدُ قَالَ: تَرْہَنُنِی نِسَائَکُمْ۔ قَالَ: أَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ أَنَرْہَنُکَ نِسَائَنَا قَالَ لَہُ: تَرْہَنُونِي أَولاَدَکُمْ۔ قَالَ یُسَبُّ ابْنُ أَحَدِنَا، فَیُقَالَ: |