Maktaba Wahhabi

42 - 78
قد استدرک جماعۃ علی البخاري ومسلم أحادیث أخلا بشرطھما فیھا ونزلت عن درجۃ ما التزماہ۔۔۔ و قد ألَّف الإمام الحافظ أبو الحسن علی بن عمر دارقطني في بیان ذلک کتابہ المسمی بالاستدراکات والتتبع وذلک في مائتي حدیث مما في الکتابین (مقدمہ نووی بر صحیح مسلم: ص۱۴۶) ’’محدثین کی ایک جماعت نے صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی بعض ان روایات کو جمع کیا ہے جن میں دونوں اماموں نے اپنی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا اور ایسی روایات بھی اپنی کتب میں نقل کر دیں جو باعتبارِ صحت،صحیحین کی عام روایات سے درجے میں کم ہیں ۔۔۔ حافظ علی بن عمر دارقطنی رحمہ اللہ نے اس موضوع پر الاستدراکات والتتبع کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس میں اُنہوں نے صحیحین کی ایسی دو سو روایات کو جمع کیا ہے۔‘‘ اس بحث کا خلاصہ یہی ہے کہ صحیحین کی روایات پر ائمہ سلف نے جو تنقید کی ہے، وہ اکثر و بیشتر اس درجے کی نقد نہیں ہے کہ جس سے صحیحین کی کسی روایت کا ضعیف ہونا لازم آئے اس لیے اس کلام کے بعد بھی صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں ، اگرچہ صحیحین کی منتقد روایات کا درجہ ان روایات سے کم ہے جن پر محدثین کی طرف سے کوئی کلام نہیں ہوا۔اس لیے زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ ترجیحات کے اُصولوں میں سے ایک اُصول یہ بنا لیا جائے کہ اگر صحیحین کی دو روایات باہم آپس میں معارض ہوں تو غیر منتقد روایت کو منتقد(نقد شدہ) روایت پر ترجیح دی جائے گی، لیکن اس ترجیح کے بعد بھی ہم منتقد روایت کو صحیح ہی کہیں گے جیسے کہ منسوخ روایت صحیح ہوتی ہے۔ بعض متجددین کو صحیحین کی بعض روایات میں جو اشکال پیدا ہوتے ہیں اگر وہ ان کے حل کے لیے صحیحین کو ضعیف قرار دینے کی تحریک چلانے کی بجائے ان احادیث کی مناسب تاویلات کا رستہ اختیار کرتے تو اللہ تعالیٰ لازماً ان کے شکوک و شبہات رفع فرما دیتے اور آج صحیح بخاری و صحیح مسلم جیسے اہم مجموعہ ہائے حدیث نااہل مفکرین و نام نہاد محققین کے ہاتھوں کھیل تماشہ نہ بن جاتے۔
Flag Counter